پاکستان میں داعش کی موجودگی کی خبروں کے پیچھے کیا ہے؟
1 جنوری 2016اس طرح پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ لاہور کی تین خواتین کے اپنے درجن بھر بچوں کے ہمراہ شام روانگی کی خبریں بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ چند دن پہلے کراچی سے ملنے والی ایک خبر میں بھی داعش سے تعلق رکھنے والے خواتین کے ایک گروہ کی بات سامنے آئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے داعش کے حوالے سے بلوچستان کی بھرتیوں کی بات بھی سامنے آئی تھی۔
تازہ ترین پیش رفت میں لاہور کے علاقے وحدت روڈ سے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مہر حامد نامی ایک شخص کو حراست میں لیا ہے، اس کے بارے میں میڈیا میں خبریں تھیں کہ اس کی اہلیہ فرحانہ حامد مبینہ طور پر داعش میں شمولیت کے لیے شام جا چکی ہے۔ فرحانہ حامد کے بھائی عمران خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کی ہمشیرہ فرحانہ شام نہیں گئی ہیں بلکہ لاہور کے ایک نواحی علاقے میں موجود ہیں اور وہ ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
اس وقت پنجاب میں بڑے پیمانے پر داعش سے ممکنہ تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ایک بڑا آپریشن جاری ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف کا کہنا تھا کہ انٹیلیجنس اطلاعات اور ریکارڈ کی روشنی میں پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے کارکنوں اور فورتھ شیڈول میں شامل افراد کو چیک کیا جا رہا ہے:’’داعش کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے بعد ویجیلینس اور نگرانی کو بڑھا دیا گیا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو واضح طور پر بتایا کہ ابھی ان کے پاس پنجاب میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ ان کے بقول لاہور کے علاقے ہنجروال اور ٹاؤن شپ میں گھروں سے چلی جانے والی خواتین کے بھی شام پہنچنے کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے اور نہ ہی ان خواتین کے گھر والوں نے کسی ایسی بات کی تصدیق کی ہے۔
تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’پاکستان میں داعش کے نظریات سے مطابقت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو جمہوری حکومتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے خلافت کی بات کرتے ہیں۔ کچھ لوگ مسلح جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لانے کے بھی حامی رہے ہیں۔ داعش کا ایسے لوگوں کو متاثر کرنا بعید از قیاس نہیں ہے‘ لیکن ان کی رائے میں داعش کے حوالے سے ملنے والی اطلاعات کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل (ر) زاہد مبشر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’آرمی چیف پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا سایہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔ ان کے بقول ’پاکستان میں داعش تو نہیں البتہ داعش کے نظریات سے ہمدردی رکھنے والے لوگ موجود ہیں لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں ماحول دہشت گرد تنظیموں کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں ہے‘۔
زاہد مبشر کے مطابق:’’پاکستان کے عوام میں داعش کے لیے ہمدردی نہیں ہے، ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، داعش کا پاکستان آنا اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف ہو گا کیونکہ یہاں حالات ان کے لیے سازگار نہیں ہیں۔‘‘
ممتاز تجزیہ نگار اور سیاسیات کے استاد پروفیسر سجاد نصیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے سرگرم مختلف گروہوں کی حمایت میں ایک خاص مائنڈ سیٹ تو موجود ہے، اس سوچ کے حامل افراد انفرادی طور پر داعش کا اثر قبول کر سکتے ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ ابھی پاکستان میں داعش منظم ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے‘۔ ان کے بقول پاکستان میں ضرب عضب کے باعث دہشت گردی بہت کم ہو گئی ہے، دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے نیٹ ورک بھی غیر فعال ہو چکے ہیں، اس لیے یہاں داعش کے پنپنے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے طرح طرح کی سازشی تھیوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک خاص وقت میں کچھ ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے داعش کی خبریں سامنے لائی جا رہی ہوں۔ ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بعض حلقے اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے داعش کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہوں۔
پروفیسر سجاد نصیر البتہ ایسی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں مغربی دنیا یہ چاہتی تھی کہ پاکستان مڈل ایسٹ میں داعش کے مقابلے کے لیے کردار ادا کرے۔ پاکستان کی طرف سے معذرت کے بعد سعودی عرب کے ذریعے یمن کی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی کوشش کی گئی، اس میں بھی ناکامی پر 34 رکنی فوجی اتحاد سامنے لایا گیا:’’دیکھا یہ جانا چاہیے کہ داعش کے تازہ پراپیگنڈے کے ذریعے کہیں پاکستان کی رائے عامہ کو کسی خاص فیصلے کے لیے تو تیار نہیں کیا جا رہا"۔