پاکستانی میڈیا اور صحافت میں عدم برداشت کا کلچر
6 جنوری 2020فواد چودھری اور مبشر لقمان کے بیچ پر تشدد اختلاف کی وجہ بننے والے صحافی نے معافی مانگ لی ۔ کون صحیح کون غلط ؟جرنلسٹ کیا کہتے ہیں؟
وفاقی وزیر اور فواد چودھری کے بیچ جھگڑے کی بابت تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ دونوں کے بیچ جس رپورٹر کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا اس نے اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس مسئلے کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر سے معافی طلب کر لی ہے۔ رائے ثاقب کھرل نے مبشر لقمان کے پروگرام میں ہی یہ بات کی تھی کہ ٹک ٹاک فیم سوشل میڈیا اسٹار گرل حریم شاہ کے پاس پی ٹی آئی سیاستدانوں کے حوالے سے ویڈیوز موجود ہیں لیکن آج بروز پیر اپنی ٹوٹ کے ذریعے انہوں نے اس مسئلے کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دے کر معافی طلب کی جس پر فواد چودھری نے ان کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جو تکلیف ان کو الزامات سے پہنچی ہے وہ اس بیان سے کم نہیں ہوئی۔
پاکستانی میڈیا اور سیاست دانوں کے مابین ایک بار پھر پرعدم برداشت کا کلچر اس وقت سامنے آیا جب اتوار کے روز وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ٹی وی شو کے معروف میزبان مبشر لقمان کو ایک صوبائی وزیر کے بیٹے کی شادی میں تھپڑ رسید کر دیا۔ ذرائع کے مطابق صوبائی وزیر پنجاب برائے آبپاشی محسن لغاری کے بیٹے کی دعوت ولیمہ کی تقریب کے دوران مذکورہ وزیر اورٹی وی اینکر کے درمیان جھگڑا شروع ہوا تو وزیر نے صحافی کو تھپڑ دے مارا اور اسکے بعد یہ بات گتھم گتھا ہونے تک جا پہنچی۔ اس ولیمے کی تقریب میں شریک دیگر شخصیات نے جھگڑے کے دوران بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس فساد کی وجہ یہ تھی کہ ٹی وی اینکر نے اپنے یو ٹیوب چینل کے پروگرام میں فواد چودھری پر معروف ماڈل اور ٹک ٹاک گرل حریم شاہ کے حوالے سے الزام لگایا تھا۔
اس لڑائی کے بعد ٹی وی اینکر مبشر لقمان کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے کی بات سامنے آئی لیکن فی الوقت کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو پائی۔ البتہ مبشر لقمان کی جانب سے ایس ایچ او تھانہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے نام جو درخواست جمع کرائی گئی ہے اس میں لکھا گیا ہے کہ بروز اتوار وہ محسن لغاری کے بیٹے کے ولیمے میں شریک تھے کہ فواد چودھری نے ان پر اپنے دس بارہ مسلح غنڈوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور ان کو نہ صرف شدید تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔ مبشر لقمان کا موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے نمبروں پر جواب موصول نہ ہو سکا۔
اس سلسلے میں جب ڈی ڈبلیو نے فواد چودھری سے رابطہ کر کے ان سے سوال کیا کہ آپ نے دوسری دفعہ ایک صحافی کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے یہی وجہ ہے کو لوگوں میں یہ تاثر اجاگر ہوا ہے کہ شاید آپ میں تحمل کی کمی ہے اور آپ اپنے غصے کو قابو نہیں کر پاتے۔ تو اس پر ان کا کہنا تھا،’’ایک وزیر کو جب یہ کہا جائے کہ اس کی نا زیبا ویڈیوز موجود ہیں تو کیا یہ سن کراس کو غصہ نہیں آئے گا۔ ہم اپنے گھر والوں کو جواب دہ ہیں اور سیاستدان صرف اپنے گھر والوں کو ہی نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو جواب دہ ہوتا ہے۔ عزت کے آگے کچھ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سیاستدانوں کو ریٹنگ کے لیے مذاق ہی بنا لیا جائے۔ مغرب میں بھی لوگ ایسا الزام برداشت نہیں کرتے۔ جرمنی میں بھی ایسا ہو تو کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ پاکستان میں ڈیفیمیشن کے قوانین کمزور ہیں۔ پی ٹی اے سیاستدانوں پر لگائے گئے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی فوجی جرنیل یا ججز کے معاملات پر فوری عمل ہوتا ہے کیونکہ ان سے ڈرا جاتا ہے۔‘‘
سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل اور ایڈیٹر عوامی آواز ڈاکٹر جبار خٹک کا اس بارے میں کہنا تھا کہ،’’ آزادئیِ صحافت کو ذمے داری سے نبھانا ہوتا ہے۔ کردار کشی آزادئیِ صحافت کے زمرے میں نہیں آتی۔ پورے ملک میں عدم برداشت کی فضا ہے۔ اختلافات تشدد سے بڑھتے ہیں ختم نہیں ہوتے۔ اگر کسی کو کوئی شکایت ہو تو عدالتیں موجود ہیں۔ ۔ پاکستان میں غنڈہ گردی کے ساتھ میڈیا گردی بھی چل رہی ہے۔ یہاں نان ایشوز کو ایشوز بنا کو لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی جاتی ہے۔ میڈیا کا اصل کام عوام کی آواز بننا ہے۔‘‘
جبکہ ٹی وی اینکر عارف حمید بھٹی نے ڈی ڈبلیو سے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ،’’صحافت پر قدغن کوئی پہلی یا آخری بار نہیں لگائی گئی ہم نے آزادئیِ صحافت کے لیے کوڑے بھی کھائے اگر کوئی جرنلسٹ غلط ہے تو قانونی ذرائع موجود ہیں ۔ جرنلسٹ جس طاقتور کے بارے میں بات کرے سیاستدان اسکے خلاف ہو جاتے ہیں۔ اگر وزیراعظم نے اس پر ایکشن نہ لیا تو اس مسئلے پر صحافی برادری نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ قانون کے منہ پر تھپڑ ہے۔‘‘
صحافی رضا رومی نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرنلزم سے زیادہ عدم برداشت کا مسئلہ ہے۔ جسمانی یا زبانی تشدد کا کلچر فروغ پا گیا ہے۔ میں دونوں اصحاب کو قریب سے جانتا ہوں اگر وہ وزیر نہ ہوتے تو اور بات تھی مبشر اگر غلط بات کر رہے تھے تب بھی ان کو احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ میں اس پر صرف یہی کہوں گا کہ
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے فواد چودھری نے صحافی سمیع ابراہم پر بھی ہاتھ اٹھایا تھا اس وقت بھی پاکستانی میڈیا پر اس مسئلے پر خاصی بحث ہوئی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس مسئلے میں مشہور ٹک ٹاک فیم حریم شاہ کا نام بھی نتھی ہے جن کے بارے میں پاکستانی صارفین کا کہنا ہے کہ ان کی جان کو بھی قندیل بلوچ کی طرح خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا میڈیا ان الزامات کی زد میں رہتا ہے کہ ٹی وی اینکرز جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذرائع پر فیک نیوز اور پراپیگنڈے کی بھر مار ہوتی ہے۔ جہاں بغیر ثبوت کے الزام تراشی ایک وطیرہ بن چکا ہے وہیں سیاستدان بھی اپنے خلاف صحیح بات بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔