1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھاتی کے سرطان کے علاج کے بعد بھی دوبارہ کینسر کا خطرہ

شمشیر حیدر اے ایف پی
9 نومبر 2017

چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے والی خواتین کو علاج کے بعد بھی دوبارہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق بریسٹ کینسر کے علاج کے بیس برس بعد بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2nKQz
Krebs Krebszelle Illustration Symbolbild
تصویر: Colourbox

نیو انگلینڈ جنرل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے والی خواتین کا ٹیومر بڑا ہو اور وہ چار سے زائد ’لمفی غدود‘ کو متاثر کر رہا ہو، تو ایسی صورت میں ان مریضوں میں جسم کے کسی دوسرے حصے میں کینسر کی بیماری پیدا ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

انڈوں میں مہلک امراض کی دوا شامل، جاپانی محققین کا کارنامہ

کینسر ادویات کو متعارف کرانے میں یورپی ادارے کی جلد بازی

اس سائنسی مطالعے میں محققین نےچھاتی کے کینسر کے مرض میں مبتلا  تریسٹھ ہزار سے زائد خواتین پر تحقیق کی۔ یہ خواتین ’ایسٹروجن ریسپٹر‘ کے باعث سرطان کے مرض میں مبتلا ہوئی تھیں، زیادہ تر خواتین عموماﹰ اسی نوعیت کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں۔

سرطان کے مرض میں مبتلا ان خواتین کا علاج ’اینڈوکرائن تھراپی‘ کے ذریعے کیا گیا تھا اور علاج مکمل ہونے کے پانچ برس بعد تک وہ سرطان کے مرض سے مکمل طور پر صحت یاب تھیں۔

تاہم اس محققین نے اس جائزے کے نتائج میں بتایا ہے کہ پانچ سال تک کینسر کے مرض سے مکمل صحت یابی کے بعد ان مریضوں میں اس مرض کی دوبارہ ’بتدریج‘ نشاندہی ہوئی۔ کئی مریض خواتین علاج مکمل ہونے کے پانچ سے پندرہ برس بعد اس مرض میں مبتلا ہوئیں اور بعض کیسوں میں علاج کے بیس برس بعد بھی دوبارہ کینسر کا مرض دیکھا گیا۔

کھیل اور ورزش صحت کی ضمانت

مشی گن یونیورسٹی سے وابستہ بریسٹ کینسر پر تحقیق کرنے والے سینیئر محقق ڈینیئل ہیز کے بقول، ’’اگرچہ علاج مکمل ہونے کے پانچ برس بعد تک ان مریض خواتین میں کینسر کے مرض کی کوئی علامت باقی نہیں تھی لیکن پانچ تا بیس برس کے عرصے کے مابین ان خواتین میں ہڈیوں، جگر یا پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ پھر بھی موجود رہتا ہے۔‘‘

اس مطالعے کے بعد بریسٹ کینسر کے علاج کے  مروجہ طریقہ کار کی افادیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ طریقہ علاج کا دورانیہ پانچ سے بڑھا کر دس برس کر دیا جانا چاہیے۔

تاہم اسی تحقیقی مطالعے سے وابستہ ایک دوسرے محقق رچرڈ گرے کا کہنا تھا، ’’بیس سال کے عرصے تک سرطان کے مرض کی نشاندہی کے لیے ہم نے اس تحقیق میں ایسے مریضوں کا جائزہ لیا جن کا علاج برسوں پہلے ہوا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس عرصے میں چھاتی کے کینسر کے علاج کے طریقے میں بھی کافی بہتری آئی ہے۔ اس لیے حالیہ عرصے کے دوران جن خواتین کا علاج کیا گیا، ممکنہ طور پر ان کے دوبارہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات نسبتاﹰ کم ہوں گے۔‘‘

تمباکو کے باعث پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ ہلاکتیں

کینسر کا علاج، میتھاڈون کی مدد سے زیادہ طاقتور کیمو تھیراپی