چین نے تیرہ ہزار ویب سائٹوں کو بند یا منسوخ کر دیا
24 دسمبر 2017چین کی حکومت نے سن 2015 سے ایسی تیرہ ہزار ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے، جنہوں نے قانون شکنی کی تھی۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ کئی ویب سائٹوں کو بند کرنے کے حکومتی اقدامات کو عوامی تائید بھی حاصل رہی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق بیجنگ حکومت کی یہ کارروائی سائبر اسپیس کی صفائی کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
انٹرنیٹ پر قرض فراہم کرنے والی کمپنیاں بند کرنے کا حکم
کیا چین میں آزادی اظہار ایک جرم بنتا جا رہا ہے؟
چین: من گھڑت خبروں نے حوالات پہنچا دیا
چین میں فرضی ناموں سے بنے اکاؤنٹ بند کرنے کا فیصلہ
ان ویب سائٹس کے حوالے سے بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتظامی کنٹرول کے مقرر کردہ ضوابط کی خلاف ورزی کی تھی۔ ان ویب سائٹوں کے علاوہ ایک کروڑ کے لگ بھگ انٹرنیٹ اکاؤنٹس کو بند کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ان اکاؤنٹس کو بند کرنے کی وجہ ان کی جانب سے سوشل میڈیا کا غیرضروری استعمال بتایا گیا ہے۔
شنہوا نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نیشنل پیپلز کانگریس کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین وانگ شینگوئین کا کہنا ہے کہ ہزاروں ویب سائٹوں اور لاکھوں اکاؤنٹس کو بند کرنے کے سائبر اسپیس پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ شینگوئین نے حکومتی اقدامات کو مناسب قرار دیا۔
سن 2012 میں صدر شی جنگ پنگ کے حکومت میں آنے کے بعد سے چین میں انٹرنیٹ پر کنٹرول کی پالیسی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کے مطابق چین میں انٹرنیٹ یا آن لائن معلومات کے حصول پر انتہائی سخت پابندیاں عائد ہیں۔ اس تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ چین اُن پینسٹھ ملکوں میں شامل ہے، جہاں انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی ممکن نہیں ہے۔
کئی بین الاقوامی ادارے بیجنگ حکومت کی پالیسی کو آزادئ رائے کے منافی قرار دیتے ہیں۔ اس وقت چین میں گوگل، فیس بک اور ٹویٹر کے علاوہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر بھی پابندی عائد ہے۔ ان کے علاوہ دیگر کئی غیرملکی ویب سائٹوں تک چینی عوام کو رسائی حاصل نہیں ہے۔