1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین ہانگ کانگ میں کیا کرنے کو ہے؟

14 اگست 2019

اگر چین ہانگ کانگ میں پیش قدمی کرتا ہے، تو اس سے دنیا کے اس اہم مالیاتی مرکز کا  کاروبار برباد ہو سکتا ہے اور لوگوں کو حاصل بنیادی آزادیاں ہمشہ کے لیے متاثر ہو سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3NtmO
China, Hong Kong
تصویر: AFP/Getty Images

پچھلے چند روز کے دوران چین میں انٹرنیٹ پر پھیلنے والی بعض ویڈیوز  سے لگتا ہے کہ چین ہانگ کانگ کے قریب سرحدی شہر شین زین میں سکیورٹی اہلکاروں کی نقل و حرکت بڑھا رہا ہے۔ ویڈیوز سے واضح ہے کہ یہ چین کی مسلح پولیس فورس کے دستے ہیں، جنہیں بکتر بند گاڑیوں میں بظاہر ہانگ کانگ کے قریب تعینات کیا جا رہا ہے۔اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ دکھانا ہے کہ وہ اپنے خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ کے سامنے کتنا طاقتور ہے۔ سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت سے چین کھل کر یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں دس ہفتوں سے جاری مظاہروں کو طاقت کے زور پرکچلنے کے لیے بھی تیار ہے۔

دراصل آمریت کا اہم اصول خوف قائم کرنا ہوتا ہے۔ جو حکمران خود عوام کی طاقت سے خوف زدہ ہوتے ہیں، وہ لوگوں میں ریاست کا خوف ڈالتے ہیں۔ چین اس طرح کا نظام چلانے میں خاصی مہارت  رکھتا ہے۔

حکومت کے پاس اپنے شہریوں کو یہ باور کرانے کے کئی طریقے ہیں کہ وہ زور زبردستی کرنے سے نہیں ہچکچائے گی۔ یعنی آپ کی کمپنی کے باس کو خفیہ اہلکاروں کی طرف سے دھمکی آمیز فون آ سکتا ہے،  آپ کے ملک سے باہر جانے پر پابندی لگ سکتی ہے، آپ کو اٹھا بھی لیا جا سکتا ہے اور تشدد بھی کیا جا سکتا ہے۔

China, Hong Kong - Unruhe
تصویر: Reuters/T. Siu

لیکن چینی حکمرانوں کو شاید نظر آرہا ہے کہ ہانگ کانگ کے نوجوان مظاہرین پر ان تمام حربوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا۔ نہ پولیس تشدد اور نہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں انہیں روکنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ مبینہ 'فساد‘ کے مرتکب افراد کے لیے مقرر کردہ دس سال تک قید  کی سزا کا بھی مظاہرین پر بظاہر کوئی فرق نہیں پڑا۔

یہ حالات چین کے حکمرانوں کے لیے ضرور باعث تشویش ہوں گے۔  لیکن بیجنگ حکومت بھی خالی دھمکیوں پر یقین نہیں رکھتی۔ آخر تیس برس پہلے بھی جب تیانانمن اسکوائر میں مظاہرے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، تو اُس وقت کی کمیونسٹ قیادت نے انہیں کچلنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔ بیجنگ کی روش یہی بتاتی ہے کہ جب بھی اسے اقتدار پر اپنی گرفت کمزور پڑنے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو حکام شہریوں پر گولیاں چلانے سے دریخ نہیں کرتے۔

ہانگ کانگ کے مظاہرین ان خطرات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ایسی کسی خام خیالی کا شکار نہیں کہ ان کے مظاہروں سے کوئی بہت بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کے تسلط کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے شاید یہ ان کے پاس آخری موقع ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں۔

Hongkong Proteste am Flughafen | Fu Guohao Reporter der Global Times
تصویر: Reuters/Tyrone Siu

لیکن اگر چین ہانگ کانگ میں کوئی مسلح پیش قدمی کرتا ہے، تو اس سے ہانگ کانگ کو بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ دنیا کے اس اہم مالیاتی مرکز کا کاروبار برباد ہو سکتا ہے اور لوگوں کو حاصل بنیادی آزادیاں ہمشہ کے لیے ختم یا متاثر ہو سکتی ہیں۔ پھر ہانگ کانگ کے لوگوں کا کیا بنے گا؟

چین اگر مظاہروں کے پرتشدد خاتمے کی جانب بڑھتا ہے، تو شاید دنیا اس کو روک نہ سکے۔ بلکل ویسے ہی جب تین عشرے قبل بیجنگ میں آپریشن کے موقع پر چین کے اُس وقت کے لیڈر ڈینگ سیاؤپنگ  نے کہا تھا، ''دنیا اسے بھول جائے گی۔‘‘

لیکن اس مرتبہ اگر چین ایک بار پھر طاقت کے بے دریغ استعمال پر اتر آتا ہے، تو جمہوریت کا پرچار کرنے والے مغربی ممالک کو کم از کم یہ یقینی بنانا چاہیے کہ چین کو ایسے کسی اقدام کی بھاری قیمت چکانا پڑے۔

ماتھیاس بوئلِنگر (شاہ زیب جیلانی / م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید