ڈرون حملے بند کئے جائیں:فلپ آلسٹن
3 جون 2010سزائے موت کے ماورائے عدالت واقعات سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے اقوام متحدہ کے اہلکار فلپ آلسٹن نے یہ مطالبہ کیا ہے۔ اُن کے مطابق میدان جنگ سے دور بیٹھ کر دئے جانے والے احکامات پر کئے جانے والے ان حملوں میں بے گناہ انسانوں کی ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ان انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ ’آن لائن تفریحی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے Playstation‘ کے ساتھ کھیلنے والے کسی انسان کی سی سوچ کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔ فلپ آلسٹن نے اس بارے میں اپنی 29 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں عالمی ادارے کو بتایا ہے کہ میزائل حملے محض اُس وقت حق بجانب ہوتے ہیں، جب باغیوں کو زندہ پکڑنا ناممکن ہو۔ اس کے علاوہ صرف امریکی فوج ہی کی طرف سے ایسے حملے کئے جا سکتے ہیں، جو مکمل طور پر چوکنا رہتی ہے اور جنگی قوانین کا احترام کرتی ہے۔
امریکی خفیہ ادارے CIA کی طرف سے افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں پر ’بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے‘ ان طیاروں کی مدد سے کئے گئے حملوں میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے بہت سے عام شہری تھے۔
فلپ آلسٹن کے بقول: ’’خفیہ ایجنسیاں قانونی اعتبار سے اپنے تنخواہ دہندگان کے علاوہ کسی اور اتھارٹی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتیں۔ اس وجہ سے انہیں ایسے کسی پروگرام پر عمل درآمد کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جو دوسرے ممالک میں بھی انسانی ہلاکتوں کا سبب بنے۔‘‘
عالمی ادارے کے اس غیر جانبدار نمائندے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ CIA کو کب اور کہاں انسانوں کو ہلاک کر دینے کا اختیار حاصل ہے۔ کیا یہ ہلاکتیں قانونی طور پر صحیح ہیں، امریکی خفیہ ادارے اپنے حملوں کے لئے اہداف کا تعین کن بنیادوں پر کرتے ہیں اور ان حملوں میں عام شہریوں کی غیر قانونی ہلاکتوں کے بعد ایسے معاملات کی چھان بین کس طرح کی جاتی ہے۔ ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فلپ آلسٹن نے جو رپورٹ تیار کی، وہ انہوں نے جمعرات کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل کو پیش بھی کر دی۔
ماورائے عدالت انسانی ہلاکتوں کے بارے میں عالمی ادارے کے لئے رپورٹیں تیار کرنے والے آلسٹن کے ان کی تازہ ترین رپورٹ میں اختیار کئے گئے مؤقف کو امریکی خفیہ ادرے نے متنازعہ قرار دیا ہے۔ سی آئی اے کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس امریکی خفیہ ادارے کا حقیقی معنوں میں احتساب کیا جاتا ہے اور یہ تصور غلط ہے کہ CIA کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہے۔
امریکہ جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی 47 رکنی ہیومن رائٹس کونسل کا رکن ملک ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے امریکی خفیہ ادارہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور اُن سے ملحقہ افغان علاقوں میں ڈرون حملوں میں واضح اضافہ کر چکا ہے۔ ان حملوں کا ہدف نہ صرف القاعدہ اور طالبان کے چوٹی کے لیڈران بلکہ اُن کے بہت سے نامعلوم ساتھی بھی بنتے ہیں۔
مئی میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ سی آئی اے کو پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان میں ’بغیر پائلٹ کے طیاروں‘ سے کئے جانے والے حملوں کے احکامات ماضی میں سابق صدر جارج ڈبلیو بُش نے جاری کئے تھے اور اس سلسلے کو صدر باراک اوباما نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ خود اوباما ہی کے حکم پر CIA نے ان ڈرون حملوں میں واضح اضافہ بھی کر دیا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک