ڈینگی کی وبا، نئی دہلی کے ہسپتال بھرے ہوئے
21 اکتوبر 2013ہر سال مون سون کے موسم میں جب یہ بیماری پھیلتی ہے تو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے شہریوں میں خاص طور پر خوف پھیل جاتا ہے۔ گرمیوں کی شدت کم ہوتے ہی جب بارشیں شروع ہوتی ہیں، تو نئی دہلی کے ہسپتالوں کے وارڈ ڈینگی کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔
تب ہر سال شہر میں جگہ جگہ ڈینگی بخار کے واقعات اور ان کی وجہ سے انسانی اموات کا ذکر سننے کو ملتا ہے۔
شہری انتظامیہ کے مطابق اس سال کے دوران اکتوبر کے پہلے تین ہفتے مکمل ہونے تک ڈینگی کے مریضوں کی مجموعی تعداد صرف ساڑھے تین ہزار رہی تھی، جن میں سے صرف پانچ مریض اس بیماری کے ہاتھوں انتقال کر گئے تھے۔
اس سال ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والا ایک مریض ایک فیکٹری میں کام کرنے والا محمد اول بھی ہے۔ اس کی والدہ مہرالنسا کے مطابق وہ پہلے اسے لے کر ایک سرکاری ہسپتال گئی تھیں۔ لیکن وہ ہسپتال تو پہلے ہی ڈینگی کے مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔ کسی بھی وارڈ میں کوئی ایک بستر بھی خالی نہیں تھا۔
نئی دہلی کے مشرقی حصے میں اپنے ایک کمرے کے کچے گھر میں بیٹھے ہوئے مہرالنسا نے بتایا کہ اب وہ اپنے بیٹے کا علاج گھر پر کر رہی ہیں اور اسے ادویات کے طور پر ملٹی وٹامن اور پیراسیٹامول کی گولیاں دیتی ہیں۔
محمد اول یہ دوائی استعمال کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی زمین پر بچھی چادر پر دو تکیے لے کر لیٹا رہتا ہے۔ اول اور مہرالنسا کے گھر میں کوئی میٹرس نہیں ہے۔
نئی دہلی میں ڈینگی بخار کی وبا کے حوالے سے سن 2010 سب سے برا سال رہا تھا۔ اب ایسے اشارے بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں کہ 2013ء شاید اپنے اختتام تک اتنا ہی برا سال ثابت ہو جتنا کہ 2010ء ثابت ہوا تھا۔
صحت عامہ کے شعبے کے ماہرین اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نئی دہلی کا سب سے بڑا پبلک ہسپتال ہندو راؤ ہسپتال ہے۔ اس عوامی ہسپتال نے اکتوبر کے شروع میں اعلان کر دیا تھا کہ وہاں پہلے سے طے شدہ معمول کے تمام آپریشن ملتوی کیے جا رہے ہیں، تاکہ ڈینگی بخار کے زیادہ سے زیادہ مریضوں کو جگہ مہیا کی جا سکے۔
نئی دہلی کی علاقائی حکومت نے اس سال ڈینگی وائرس کے حملے کے واقعات میں اضافے کا سبب مون سون کے معمول سے طویل موسم کو قرار دیا ہے۔
انہوں نے ابھی حال ہی میں ان دعووں کی تردید کی کہ 17 ملین کی آبادی والے شہر نئی دہلی میں ڈینگی کی وبا کو اصل سے بہت چھوٹا مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈینگی وائرس کا پتہ پہلی بار1950ء کی دہائی میں فلپائن اور تھائی لینڈ میں چلا تھا۔ یہ وائرس ہر سال پوری دنیا میں قریب دو ملین انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس کے مریضوں کی سالانہ تعداد بڑھ کر 30 گنا ہو چکی ہے۔ بھارت میں بھی اس بیماری کا شکار ہونے والے مریضوں کی اوسط سالانہ تعداد کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ اس سال بھارت میں اب تک ڈینگی وائرس کے 38 ہزار واقعات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔