کئی خلیجی ریاستیں ناراض مگر کویتی امیر قطر پہنچ گئے
8 جون 2017متحدہ عرب امارات میں دبئی سے جمعرات آٹھ جون کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق تیل اور قدرتی گیس کے بے تحاشا ذخائر کا مالک ملک قطر ایک ایسی خلیجی عرب ریاست ہے، جہاں امریکا کا ایک اہم فوجی اڈہ بھی ہے۔
’ترکی قطر کے ساتھ کھڑا ہے‘، انقرہ حکومت
قطر کے حق میں بولنے والے اماراتی شہریوں پر پابندی
سعودی عرب کے دورے کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں، امریکی صدر
متعدد عرب ممالک کی طرف سے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے کے بعد خلیج کے خطے میں جس صورت حال کو ’قطر کے بحران‘ کا نام دیا جا رہا ہے، اس پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح بدھ سات جون کو رات گئے جب دوحہ پہنچے، تو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی ان کا استقبال کرنے کے لیے خود ایئر پورٹ پر موجود تھے۔
لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جس وقت کویتی امیر قطر پہنچے، اس سے کچھ ہی دیر قبل متحدہ عرب امارات میں اعلیٰ حکام نے کہا کہ قطر کے بحران کے حل کے لیے ’ایسا کچھ بچا ہی نہیں، جس پر بات چیت کی جا سکے‘۔
دوحہ میں قطر کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق کویت اور قطر کے حکمرانوں نے گزشتہ رات اپنی بات چیت میں اس بارے میں تبادلہ خیال کیا کہ خلیج کے علاقے میں ’معمول کے علاقائی تعلقات‘ کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔
ان تعلقات کی بحالی کی ضرورت اس پس منظر میں اور بھی زیادہ ہے کہ قطر 2022ء میں فیفا کی عالمی فٹ بال چیمپئن شپ کا میزبان ملک بھی ہو گا اور خلیج کے علاقے میں بین الاقوامی فضائی سفر کے حوالے سے بھی قطر کی حیثیت ایک بڑے مرکز کی ہے۔ لیکن اچانک پیدا ہونے والے بحران کے باعث نہ صرف یہ خیلجی ریاست کافی الگ تھلگ ہو گئی ہے بلکہ زمینی، فضائی اور سمندری رابطوں کے حوالے سے بھی قطر کافی حد تک کٹ گیا ہے۔
قطر تنازعہ، کیا بھارتی مفادات بھی متاثر ہوں گے؟
قطر کا سفارتی بحران، معاملہ حل کیسے ہو گا؟
پڑوسیوں نے قطر کو اچانک تنہا کر دیا
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ کویتی امیر کے قطر پہنچنے سے پہلے متحدہ عرب امارات کے خارجہ امور کے وزیر مملکت انور قرقاش نے کہا، ’’قطر نے اپنے لیے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا راستہ منتخب کیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اس کی قیمت بھی چکائے۔‘‘ لیکن متعدد عرب ممالک کے یہ وہ الزامات ہیں، جن کی قطر کی طرف سے واضح اور پرزور تردید کی جاتی ہے۔
قطر کے حوالے سے پیدا ہونے والا بحران کتنا شدید ہے، اس کا اندازہ متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت انور قرقاش کے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے، ’’قطر کو یقینی طور پر اپنے ہاں سے حماس کے ارکان کو ملک بدر کرنا ہو گا اور ان تمام دہشت گرد گروپوں کی حمایت بھی ترک کرنا ہو گی، جن میں دہشت گرد نیٹ ورک ’القاعدہ کا ڈی این اے‘ پایا جاتا ہے۔‘‘
انور قرقاش نے مزید کہا، ’’دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے حوالے سے قطر کے اقدامات کے فنگر پرنٹس ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ بس، اب بہت ہو چکا۔‘‘
سعودی عرب اور خلیجی تعاون کی کونسل میں اس کے کئی قریبی اتحادی ممالک، جیسے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے علاوہ شمالی افریقہ میں مصر بھی اب تک قطر سے اپنے سفارتی روابط منقطع کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ علاقے کی یہی ریاستیں قطر کے ساتھ اپنی زمینی سرحدیں اور فضائی حدود بھی بند کر چکی ہیں۔
قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگانے والی یہ عرب ریاستیں اپنے اپنے شہریوں کو بھی یہ حکم دے چکی ہیں کہ وہ قطر سے نکل جائیں جبکہ ان ممالک میں مقیم قطر کے شہریوں کو بھی یہ کہا گیا کہ وہ اگلے 48 گھنٹوں کے دوران واپس اپنے وطن چلے جائیں۔