’کافرستان‘ میں لڑکی کا جبراً اسلام قبول کروانے کا الزام
16 جون 2016نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اسلام آباد سے اپنی ایک رپورٹ میں یہ خبر پولیس اور مقامی باشندوں کے حوالے سے جاری کی ہے اور بتایا ہے کہ اس تصادم کی صورت میں تشدد شمالی پاکستان کے دور دراز پہاڑوں میں واقع ایک پُر امن علاقے تک بھی پہنچ گیا ہے۔
کیلاش کے علاقے کے ایک سرگرم کارکن لیوک رحمت کے مطابق کیلاش قبیلے کی وادی بمبورت کے شمال مغربی ضلع چترال میں یہ لڑکی اپنی جبری مذہبی تبدیلی کے بارے میں پولیس میں شکایت درج کروانے کے لیے ایک ہمسائے کے مکان میں گئی تھی، جہاں اس ہجوم نے دھاوا بول دیا تھا۔ رحمت نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس نے اس ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
کیلاش پاکستان کی سب سے چھوٹی اقلیت ہیں، جو موسیقی اور رقص کے ذریعے اپنے خداؤں کو خوش کرتے ہیں، ایسی رسومات، جو پاکستان کے قدامت پسند مسلم معاشرے کے لیے اجنبی ہیں۔
کیلاش قبیلے کے ارکان کی تعداد صرف تقریباً چار ہزار ہے۔ اس کی نوجوان نسل تیزی سے دائرہٴ اسلام میں داخل ہو رہی ہے جبکہ کیلاش کے لیے سرگرم کارکنوں کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح اس قدیم اور معدوم ہوتے ہوئے قبیلے کی روایات کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
لیوک رحمت کے مطابق ’اس لڑکی نے واپس گھر آ کر بتایا کہ اسلام قبول کرنا ایک غلطی تھی اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے، اس پر مسلمان کمیونٹی مشتعل ہو گئی‘۔
بات کرتے ہوئے رحمت کا سانس پھولا ہوا تھا اور اُس نے بتایا کہ جب مسلمانوں نے نعرے لگاتے ہوئے لاٹیھوں اور پتھروں کے ساتھ اس گھر پر دھاوا بولا تو کیلاشی کمیونٹی کے ارکان بھی وہاں جمع ہو گئے اور یوں تصادم کے نتیجے میں درجنوں افراد معمولی زخمی ہو گئے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ لڑکی ایک ہمسائے کے گھر میں گئی تھی تاکہ وہاں سے پولیس کے ساتھ بات کر سکے تاہم جیسا کہ اس مکان کے مالک نے اے ایف پی کو بتایا، اسی دوران لوگوں کا ایک بڑا ہجوم گھر کے باہر جمع ہونا شروع ہو گیا:’’وہ میری بیوی اور بچوں کو ہلاک کر دینا چاہتے تھے‘‘۔
ایک مقامی کیلاشی سیاستدان نے بتایا:’’اگر سکیورٹی فورسز موقع پر نہ پہنچتیں تو شاید وہ ہم سب کو ہلاک ہی کر ڈالتے۔‘‘ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ نوجوان لڑکی کا کیا بنا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اب حالات کنٹرول میں ہیں۔ پولیس حملے کا نشانہ بننے والے گھر کے مالک کو اُس کی حفاظت کے خیال سے ابھی گھر واپس نہیں جانے دے رہی۔