1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرپشن اور کولونیئلزم

14 مئی 2023

کیا برصغیر سمیت دنیا کی دیگر نو آبادیاتی خطوں میں کرپشن پہلے سے ہی موجود تھی یا استعماری قوتوں نے وہاں یہ زہر پھیلایا۔ ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

https://p.dw.com/p/4RKxT
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

کرپشن کی کئی اقسام ہیں جن میں رشوت، غبن، چوری، اقربا پروری، سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال اور نااہل افراد کی سرپرستی کرنا وغیرہ شامل ہے۔ کرپشن کا تعلق یورپی کولونیئلزم اور ان کی کالونیز سے بھی جڑا ہوا ہے۔

اس موضوع پر لکھی جانے والی کتاب کا عنوان ''کرپشن، ایمپائر اور جدید عہد کا کولونیئلزم‘‘ ہے۔ اس کو ترتیب دینے والے تین مصنفین Pol Dalmau, Ronald Kroezr اور Frederic Monier ہیں۔ اس کتاب میں چار یورپی طاقتوں کا ذکر ہے جنہوں نے جنوبی امریکہ اور ایشیا میں اپنی کالونیز قائم کی تھیں۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے اس میں استعماری طاقتیں اور ان کی کالونیز دونوں ہی ملوث تھے، لیکن یورپی مورخین کرپشن کا الزام کالونیز کے معاشروں اور ان کے اداروں کو دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ کالونیز میں کرپشن کی روایات بڑی پرانی تھیں جو غیر ملکی حکومتوں کے دور میں بھی جاری رہیں۔ لیکن اس دلیل میں صداقت نہیں ہے، کیونکہ یورپی طاقتوں نے اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے کرپشن کے تمام حربوں کو استعمال کیا۔

ریاست اور تشدد

عروج و زوال اور پروگریس

اسپین نے جب 1492ء میں جنوبی امریکہ کے دریافت ہونے پر وہاں کی دولت کی لوٹ کھسوٹ کی تو اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ جس قدر سونا اور چاندی وہاں سے مل سکے، اسے ملک لایا جائے۔ لیکن جب اسپین نے وہاں اپنا سیاسی اقتدار قائم کیا تو حکومت کے عہدیدار اور بیروزگار لوگوں کی بڑی تعداد تھی جنہوں نے جنوبی امریکہ کا رُخ کیا، کیونکہ مقامی باشندے کمزور تھے۔ اس لیے ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کے مالک بن گئے۔ پھر انہوں نے یہاں شہر آباد کیے اور سیاسی طاقت کے ذریعے مقامی لوگوں پر حکومت کر کے ان سے چاندی کی کانوں میں کام کرایا اور ہر آنے والے نووارد ہسپانوی نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ دولت کما کر اسپین واپس جاکر آرام کی زندگی گزارے۔ کالونیز کے انتظام کے لیے جو عہدے دار ہسپانوی حکومت کی جانب سے آتے تھے وہ بھی دولت کے حصول کے لیے ہر جائز ناجائز طریقوں کو استعمال کرتے تھے، کیونکہ اسپین اور جنوبی امریکہ کے درمیان بہت فاصلہ تھا، اس لیے اسپین کی حکومت عہدیداروں کی کرپشن کو کنٹرول نہیں کر سکتی تھی۔ اس صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عہدیداروں نے بدعنوانی کے ذریعے کافی دولت اکٹھی کی اور پھر جنوبی امریکہ ہی میں مستقل آباد ہو گئے۔ کرپشن اس قدر پھیلا ہوا تھا کہ میڈرڈ حکومت اس کو ختم کرنے میں ناکام ہو گئی بعد میں سیاسی تبدیلیاں آئیں اور جنوبی امریکہ میں مختلف ریاستیں قائم ہوئیں۔ جنہوں نے آزاد ہو کر اسپین کے تسلط کو ختم کر دیا۔ جنوبی امریکہ میں اسپین کی آخری کالونی کیوبا تھی جو شَکر کی پیداوار کی وجہ سے مشہور تھی اور یہاں اسپین کے خلاف برابر بغاوتیں ہوتی رہیں۔

دوسری اہم یورپی طاقت نیدرلینڈز کی تھی۔ جس نے انڈونیشیا کو اپنی کالونی بنایا اور اس کے ذرائع پر قبضہ کر کے جبر کے ساتھ دولت جمع کر کے نیدر لینڈز بھیجی۔ لیکن نیدرلینڈز کے مؤرخ اپنی حکومت کو کرپشن کا الزام نہیں دیتے اور انڈونیشیا کی سوسائٹی کو بدعنوانی کا مرتکب قرار دے کر خود کو اخلاقی جواز پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے انڈونیشیا میں بدعنوانی کو ختم کر کے اس کے معاشرے کی اصلاح کی، جب کہ شواہد اس کے برخلاف ہیں۔ ان کے اقتدار کے دوران انڈونیشیا کا استحصال کیا گیا اور اس کی دولت سے نیدرلینڈز کے معاشرے کی ترقی ہوئی، جبکہ انڈونیشیا پسماندہ ہوتا چلا گیا۔

تیسری اہم یورپی طاقت فرانس کی تھی جس نے شمالی افریقہ میں اپنے سیاسی تسلط کو قائم کیا اور خاص طور سے الجزائر کو فرانسیسی سلطنت کا حصہ بنا کر اس کی آزادی کو ختم کر دیا۔ الجزائر کو فرانسیسی بنانے کے عمل میں پہلا کام یہ کیا گیا کہ فرانس سے نوآبادکاروں کو بلا کر عرب کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں وہاں مستقل آباد کیا گیا۔ اس کے بعد حکومت کے تمام اداروں پر فرانسیسی مقرر کیے گئے اور عربوں کو ریاستی امور سے بے دخل کر دیا گیا۔ فرانسیسی زبان کو سرکاری زبان بنا کر اسے عربی پر فوقیت دی گئی جب عربوں نے اس رویے کے خلاف بغاوتیں کی تو انہیں سختی سے کچل دیا گیا۔ یہاں تک کہ 1960ء کی دہائی میں خونریز جنگ کے بعد الجزائر کو آزادی ملی۔ فرانس کے ان جرائم کو اس کی نصاب کی کتابوں کا حصہ نہیں بنایا گیا، بلکہ یہ تاثر دیا گیا کہ فرانس نے الجزائر کے عربوں کو مہذب بنایا۔ 

چوتھی یورپی طاقت برطانیہ تھی۔ برصغیر میں برطانوی تاجر سب سے پہلے تجارت کی غرض سے آئے تھے اور مغل دور حکومت میں ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ مغل عہدیداروں کو رشوت دے کر زیادہ سے زیادہ تجارتی مراعات حاصل کریں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے رویے میں اس وقت تبدیلی آئی جب 1757ء میں اس نے پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کو شکست دی۔ اس کے قتل کے بعد جب میر جعفر کو بنگال کا نیا نواب بنایا گیا تو رابرٹ کلائسو نے اس سے قیمتی تحفے تحائف اور بطور رشوت بھاری رقم وصول کی۔ کمپنی کے عہدیداروں کے لیے بادشاہ گر ہونا سود مند ثابت ہوا، کیونکہ کچھ عرصے بعد میر جعفر کو ہٹا کر اس کی جگہ میر قاسم کو نواب بنایا اور جب وہ ان کے مطالبات پورے نہ کر سکا تو پھر میر جعفر کو دوبارہ عہدے پر فائز کر دیا۔

اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کمپنی کے عہدیداروں اور ملازمین نے کرپشن کے ذریعے بڑی دولت اکٹھی کی اور جب یہ واپس انگلستان واپس گئے تو انہوں نے زمینیں خریدیں۔ اپنی رہائش کے لیے شاندار محلات تعمیر کرائے اور پارلیمنٹ کی نشستیں خرید کر ہاؤس آف کامن کے رکن بھی بن گئے۔ ان کے اس اثر و رسوخ کی وجہ سے انگلستان کے خاندانی امراء میں جو اب تک معاشرے کے سب سے اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ان دولتیوں کے خلاف حقارت کے جذبات پیدا ہوئے۔ عام لوگ انہیں طنزاً ''نوباب‘‘ کہتے تھے۔ جب انگلستان میں کمپنی کی بدعنوانیوں کے تذکرتے ہوئے تو حکومت کو بھی اس کا احساس ہوا کہ اس کرپشن کو کیسے روکا جائے۔ ایڈمُنڈ برک نے جو ہاؤس آف کامن کے ممبر تھے، کمپنی کے ملازمین پر تنقید کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ کمپنی کے یہ ملازمین اور عہدیدار چونکہ ان کا تعلق نچلے طبقے سے تھا اس لیے ان میں انگلستان کے بالائی طبقے یعنی اُمراء کے اخلاقی اوصاف نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کمپنی کی ساخت کو تبدیل کیا جائے۔

کمپنی میں کرپشن کو روکنے کے لیے پارلیمنٹ میں رابرٹ کلائیو کی 1772ء میں امچیچ مینٹ یعنی مواخذہ ہوا۔ دوسرا اہم مواخذے کا کیس ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز کا تھا جو 1787ء میں ہوا۔ ان دونوں مقدموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان کے اخباروں نے ان کی پوری کاروائی شائع کی اور کمپنی کے کرپشن کے بارے میں لوگوں کو معلومات فراہم کیں۔

قومی کلچر کی تشکیل

انسانی جذبات کا سیاسی اور سماجی حالات پر اثر

کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ اگر کمپنی اپنے کرپشن کی وجہ سے بدنام ہوئی تو اس کی عزت اور وقار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لیے کمپنی کے عہدیدار کرپشن سے دور رہ کر اپنی ایمانداری، دیانت اور فرائض منصبی کو ذمہ داری سے پورا کریں۔ لہٰذا دو تین ایسے واقعات ہوئے کہ جس میں کمپنی کے وہ عہدیدار جو کسی بھی لحاظ سے بدعنوانیوں میں ملوث تھے انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سے کمپنی کے جو بھی عہدیدار ہندوستان آتے تھے ان کی خاص طور سے تربیت کی جاتی تھی کہ وہ اپنے اخلاق اور ایمانداری کو قائم رکھیں تاکہ لوگوں میں ان کی عزت ہو۔

یورپی مؤرخ خاص طور سے جب ہندوستان کا حوالہ دیتے ہیں تو ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ نچلے طبقے میں کرپشن تھا، وہ انتظامیہ کو متاثر کرتا تھا اور اس سے حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بھی متاثر ہوتے تھے۔ مثلاً ماتحت اپنے افسروں کو تحفے تحائف دیا کرتے تھے۔ نظر پیش کرتے تھے اور خوشامد کے ذریعے انہیں اپنے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھانے دیتے تھے۔ 

اس لیے مؤرخین کی یہ دلیل ہے کہ کولونیئلزم نے نہ صرف اپنی کالونیز کو مہذب بنایا بلکہ ان کے ہاں جو کرپشن کی روایات تھیں انہیں ختم کر کے اصلاحات کی کوشش کی۔ انگلستان میں کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو یہ خطرہ تھا کہ اگر کرپشن کو ختم نہ کیا گیا تو متعدی مرض کی طرح کمپنی کے دیگر ملازموں کو بھی اس میں مبتلا کر دے گا اور وہ اس قابل نہیں رہے گے کہ وطن واپس آکر کوئی ملازمت کر سکتیں۔

اس لیے تاریخ میں کرپشن کو استعماری نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے تو دوسری جانب کالونیز کے لوگ کرپشن کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں کرپشن ختم نہیں ہوتی اور اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔