1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیمیائی ہتھیار تلف کر دیں گے، شامی صدر کا وعدہ

عاطف بلوچ19 ستمبر 2013

شامی صدر بشار الاسد نے ایک امریکی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ شام اپنے تمام کیمیائی ہتھیار تلف کر دے گا تاہم انہوں نے یہ اصرار بھی کیا کہ شامی فوج نے ایسے کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیے۔

https://p.dw.com/p/19kMI
تصویر: Reuters

بدھ کی رات امریکا کے فوکس نیوز ٹی وی چینل سے نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں شامی صدر کا کہنا تھا کہ شام کے پاس موجود کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی پر قریب ایک بلین ڈالر لاگت آئے گی اور اس عمل میں ایک سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ روس اور امریکا کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت اسد نے ابھی حال ہی میں عالمی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے پر رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔

فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسد نے زور دیا کہ ان کی حکومت نے اکیس اگست کو غوطہ میں باغیوں کے خلاف ممنوعہ اور مہلک سارین گیس کا استعمال نہیں کیا۔ صدر اسد ایسے مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے لیے شامی باغیوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جب کہ امریکا، فرانس اور متعدد عرب ممالک کے مطابق یہ کیمیائی ہتھیار اسد حکومت کی فوجوں نے ہی استعمال کیے۔

کیمیائی ہتھیاروں کے تلف کیے جانے کے بارے میں بشار الاسد کا مزید کہنا تھا، ’’میرے خیال میں تکنیکی طور پر یہ ایک پیچیدہ عمل ہے، جس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک بڑی رقم کی ضرورت بھی ہو گی۔ کچھ ماہرین کا اندازہ ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو تلف کرنے کے لیے ایک بلین ڈالر یا اس سے بھی زائد کی ضرورت ہو گی۔‘‘ گزشتہ روز ہی روسی حکام نے کہا تھا کہ صدر اسد 2014ء کے وسط تک شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کر دیں گے۔

Symbolbild Unterstützung Freie Syrische Armee Waffen
شامی صدر کے بقول شام میں 80 تا 90 فیصد غیر ملکی انتہا پسند جنگجو سرگرم ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

غیر ملکی جنگجوؤں کا سامنا ہے، اسد

اس انٹرویو میں صدر بشار الاسد نے ملک میں جاری بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کو خانہ جنگی کی صورتحال کا سامنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل جنگ ہے۔ اسد کا اصرار تھا کہ ان کے ملک پر القاعدہ کے حامی ہزاروں غیر ملکی جنگجوؤں نے حملہ کیا ہے، ’’یہ خانہ جنگی نہیں بلکہ ایک جنگ ہے، ایک نئی قسم کی جنگ۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 80 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اسلامی انتہا پسند اور جنگجو گوریلے اس جنگ میں شریک ہیں۔

صدر اسد نے اعتراف کیا کہ آغاز میں جب شامی عوام نے حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت جہادی طاقتیں اس عمل میں شامل نہیں تھیں تاہم 2012ء میں جب ان شامی باغیوں کو فنڈز ملنا شروع ہوئے تو بیرونی طاقتوں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ انتہا پسند طاقتیں اکثریت میں آ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے ہزاروں شامی باشندوں کے ساتھ ساتھ کم ازکم پندرہ ہزار فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کی طرف سے مرتب کردہ رپورٹ کا دفاع کرتے ہوئے اسے ایک غیر متنازعہ رپورٹ قرار دیا ہے۔ شامی صدر اسد کے اتحادی ملک روس نے اس رپورٹ کے نتائج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے یکطرفہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ اکیس اگست کو دمشق کے قریبی علاقے غوطہ میں کیے گئے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے حوالے سے یہ ایک موضوعی رپورٹ ہے اور اسے چیلنج نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید