گُڈ فرائیڈے کے دن ختنے کی مسلم تقریبات کی ممانعت
27 مارچ 2015جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر میونسٹر سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس مقدمے میں ایک اعلیٰ انتظامی عدالت نے شہر کولون کی ایک ماتحت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اعلیٰ صوبائی عدالت نے اس سال تین اپریل کو منائے جانے والے گُڈ فرائیڈے کے مسیحی تہوار کے دن ایک پبلک گیسٹ ہاؤس میں ایک مسلمان بچے کے ختنے کے سلسلے میں اس کے والدین کی خواہش کے مطابق سماجی تقریب کے انعقاد کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی بھی مسلمان خاندان کے لیے یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بچے کے مذہبی بنیادوں پر ختنے کی سماجی تقریب کا اہتمام لازمی طور پر گُڈ فرائیڈے یا جمعة الآلام کے دن ہی کرے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق صوبائی سطح پر مسیحی مذہبی تہواروں کے موقع پر عام تعطیل کا احاطہ کرنے والا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس مخصوص جمعے کے روز ایسی کسی بھی سماجی تقریب کا انعقاد کیا جائے۔
مسیحی عقیدے کے مطابق گُڈ فرائیڈے کے دن یسوح مسیح کو مصلوب کیا گیا تھا اور یہ سوگواری کے ساتھ منایا جانے والا مذہبی تہوار ہے۔ اس کے برعکس اس تہوار کے دو دن بعد منائے جانے والے ایسٹر سنڈے اور پھر ایسٹر منڈے کے تہوار اپنی نوعیت میں خوشی کے تہوار ہیں کیونکہ مسیحی عقیدے ہی کی رو سے ان کا تعلق یسوح مسیح کے دوبارہ زندہ ہو جانے سے ہے۔
عدالت کے مطابق گُڈ فرائیڈے کا شمار مذہبی تعطیلات کے ان ’خاموش دنوں‘ میں ہوتا ہے جب قانوناﹰ تجارتی نمائشوں، کاروباری منڈیوں، رقص کی محفلوں اور خوشی کی عوامی تقریبات کا اہتمام نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلے کے مطابق، ’’اس تعطیل کا مقصد مذہبی آزادی کے قانون کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ’مصائب کے جمعے‘ کے احترام کو یقینی بنانا ہے۔‘‘
پروٹسٹنٹ پریس سروس نے عدالت کی طرف سے اس کے فیصلے اور متنازعہ ہو جانے والی سماجی تقریب کی ممانعت کے حق میں دیے گئے دلائل کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے، ’’(جرمنی میں مسلمان لڑکوں کے) ختنے کی تقریب میں قرآنی آیات کا پڑھا جانا اور موسیقی، رقص اور خوشی کے طور پر ضیافت کا اہتمام کرنا بھی شامل ہوتا ہے، جس کا جزوی طور پر ہی سہی لیکن ایک سماجی تفریحی کردار بھی مسلمہ ہے۔ لیکن اس طرح کی تقریب گُڈ فرائیڈے کے بنیادی پیغام اور اس روز مذہبی تعطیل کے سماجی تقاضوں سے متصادم ہے۔‘‘ مزید یہ کہ یہی تقریب کسی بھی دوسرے روز منعقد کی جا سکتی ہے۔
اس مقدمے میں مدعی ایک جرمن گیسٹ ہاؤس کا مالک تھا، جس کا کہنا تھا کہ اس تقریب کے انعقاد کی مذہبی آزادی کے قانون کے تحت اجازت دی جانی چاہیے۔ اس پر عدالت کا جواب یہ تھا کہ کسی سماجی تقریب کے لیے کسی بھی گیسٹ ہاؤس یا ہال کے کرائے پر دیے جانے کی وجہ کاروباری ہوتی ہے نہ کہ مذہبی۔