یمن: سعودی فوجی کارروائی ایک خطرناک کھیل
27 مارچ 2015سعودی عرب کے اپنے نقطہٴ نظر کے مطابق اُس نے یمن میں ایک طرح سے ایمرجنسی بریک لگا دی ہے کہ ایک ایسے وقت میں، جب شیعہ حوثی باغی اور فوج کے منحرف حصے یمن کے شمال میں پہلے دارالحکومت صنعاء اور پھر وسطی شہر تعز پر قبضہ کرنے کے بعد پورے جنوبی یمن پر قبضہ کرنے والے تھے، ریاض حکومت نے متعدد عرب حلیف ریاستوں کی مدد سے اُن کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا۔ اب حوثیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جا رہی ہے اور اگلا قدم زمینی پیشقدمی ہو سکتا ہے۔
اس فوجی آپریشن کا باقاعدہ نام ’عزمِ صمیم کا طوفان‘ رکھا گیا ہے اور سرکاری بیانات میں اس کا اصل ہدف صدر عبد ربہ منصور ہادی کو اُن کے عہدے پر بحال کرنا اور یمن میں پھر سے امن و استحکام کے حالات پیدا کرنا بتایا گیا ہے۔ ہادی کی بحالی تو ممکن ہو بھی سکتی ہے لیکن دوسرے ہدف کا حصول یقینی طور پر ناممکن ہے کیونکہ بے انتہا غربت کے شکار اور گوناگوں تنازعات کی زَد میں آئے ہوئے یمن میں فوجی طاقت کی مدد سے امن و استحکام نہیں لایا جا سکے گا۔ اس کے لیے ایک ایسے سیاسی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے، جس میں تمام اہم قوتوں کو شامل کیا گیا ہو۔
طاقت کا مظاہرہ
اسے طاقت کا ایک نمایاں مظاہرہ کہا جا سکتا ہے کہ مصر، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات اور مراکش جیسے اہم ممالک، حتیٰ کہ پاکستان بھی فوجی اعتبار سے ایک ہی فریق کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں۔ تاہم اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ تمام ممالک یمنی عوام کے ساتھ یک جہتی کے مظاہرے کے لیے ایک ہو گئے ہیں۔ ماضی کی طرح آئندہ بھی یمن اپنے امیر ہمسایہ ملک سعودی عرب کا دست نگر ہی بن کر رہے گا۔ سعودی عرب کی نظر میں یمن محض اُس بڑے کھیل کا ایک حصہ ہے، جو عراق، شام اور لبنان میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس کھیل کا واحد مقصد خطّے میں شیعہ ایران کے اُس اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے، جو سعودیوں کی نظر میں یمن میں حوثیوں کی فوجی کامیابیوں کے نتیجے میں خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
خوش قسمتی سے ابھی تک ایسا نظر آ رہا ہے کہ شام اور عراق کے برعکس ایران یمن میں جاری جنگی کارروائیوں میں خود عملی طور پر شریک نہیں ہو گا۔ اُس کے حریفوں کی فوجی طاقت بلاشبہ بہت زیادہ ہے۔ پھر اس پورے خطّے کے جنگ کی لپیٹ میں آ جانے کے نتائج کا خود تہران حکومت بھی ابھی پوری طرح سے اندازہ نہیں لگا سکتی۔ بہرحال جیسے بھی ہو، یہ ایک خطرناک کھیل ہے، جو اس خطّے میں کھیلا جا رہا ہے کیونکہ ایران کے پاس علاقائی اثر و نفوذ برقرار رکھنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ ایران ہتھیاروں اور فوجی مشاورت کی صورت میں حوثیوں کو درپردہ اب تک کے مقابلے میں اور بھی زیادہ بڑے پیمانے پر مدد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایران سعودی عرب اور بحرین کی شیعہ آبادی کو اپنے سنّی حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے لیے اور زیادہ اُکسا سکتا ہے یا شام اور عراق میں اُن تنازعات کی آگ کو اور بھڑکا سکتا ہے، جن پر فرقہ واریت کی چھاپ ہے۔ ایسا کرتے ہوئے تہران کا مطمعِ نظر بھی یک جہتی یا اقلیتی حقوق نہیں ہیں۔ ایران بھی درحقیقت خطّے میں اپنی طاقت کو توسیع دینا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خطّے کی سنّی ریاستیں ایران کے ایٹمی پروگرام کو اُسی طرح سے تشویش کی نظروں سے دیکھ رہی ہیں، جیسے کہ اسرائیل۔
کون جیتے گا، کون ہارے گا؟
فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح آئندہ کیا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ یمن پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والا یہ بدعنوان حکمران اپنا اقتدار واپس حاصل کرنے کے لیے حوثیوں سے اتحاد کر چکا ہے۔ عرب ممالک نے اپنی فوجی کارروائی کے ذریعے صالح کے ان ارادوں کو سرِدست تو ناکام بنا دیا ہے لیکن یمنی فوج کا ایک بڑا حصہ پہلے کی طرح اب بھی صالح کا حامی ہے۔ اگر یہ فوجی یونٹ آئندہ بھی صالح کے حامی رہے تو ملک میں ہونے والی خانہ جنگی میں بہت خون بہے گا۔
ایران اور خطّے میں اُس کے شیعہ حلیف مثلاً لبنانی حزب اللہ اور عراق ابھی سے خبردار کر رہے ہیں کہ اس فوجی کارروائی سے پورے خطّے پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ خالی دھمکیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس فوجی کارروائی سے عرب دنیا میں پہلے سے بھڑکی ہوئی مسلکی کشیدگی کو اور ہوا ملے گی۔ ایسا ہوا تو اس کا فائدہ القاعدہ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسی انتہا پسند قوتوں کے ساتھ ساتھ سخت گیر شیعہ عناصر کو بھی ہو گا۔ اس جنگ میں ایک فریق بہرصورت نقصان میں رہے گا اور وہ ہے، یمن کی شہری آبادی، جن کے کندھوں پر سوار ہو کر سعودی عرب اور ایران اپنی پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح وہ ساری سیاسی قوتیں بھی نقصان میں رہیں گی، جو عرب دنیا میں مکالمت، ترقی اور تجدید کی خواہاں اور اس کے لیے کوشاں ہیں۔