پرندے جانوروں کے بال کیوں چراتے ہیں؟
24 اگست 2021نئی تحقیق حیاتیاتی ماہرین کی اب تک کی اس سوچ کی نفی کرتی ہے کہ پرندے شاید اپنے گھونسلے بنانے کے لیے یا تو زمین پر گرے ہوئے حیوانی بال اور چھوٹے چھوٹے پر جمع کر لیتے تھے یا پھر اس کام کے لیے وہ مردہ جانوروں کی تلاش میں رہتے تھے۔
دنیا پچاس ارب پرندوں کا مسکن، سائنسدانوں کا اندازہ
پرندوں کی کئی قسموں کے سماجی اور نفسیاتی رویوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی اس ریسرچ کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ جب بدلتے موسموں میں نئے گھونسلے بنانے کا وقت آتا ہے، تو چند انواع کے پرندے تو اپنے رویوں میں کچھ عرصے کے لیے بالکل بےجھجھک ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے 'گھر‘ زیادہ سے زیادہ نرم اور آرام دہ مادوں سے بنے ہونا چاہییں۔
بہترین 'تعمیراتی ساز و سامان‘
ماہرین کے مطابق اپنے 'گھروں‘ کے لیے 'تعمیراتی ساز و سامان‘ کے طور پر ان پرندوں کو اکثر ممالیہ جانوروں کے بالوں کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ مخصوص جستجو بھی ایک باقاعدہ منطق کے تحت کی جاتی ہے۔
اس لیے کہ ایسے بالوں کی نقل و حمل بہت آسان ہوتی ہے، ان کے تقریباﹰ دھاگے کی طرح لچک دار ہونے کے باعث انہیں گھونسلوں کی تعمیر میں حسب خواہش اور حسب ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے اور وہ حدت کے ضیاع کو روکتے ہوئے پرندوں کے نومولود بچوں کی جسمانی حفاظت میں معاون بھی ہوتے ہیں۔
کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کا نتیجہ، پرندے صوتی آلودگی سے محفوظ
کچھ عرصہ پہلے تک جو بات غیر واضح تھی، وہ یہ تھی کہ ایسے پرندے اپنے گھونسلوں کی تعمیر کے لیے بال کہاں سے لاتے ہیں۔ کئی ماہرین کا خیال یہ تھا کہ یہ پرندے ایسے گرے ہوئے بال زیادہ تر زمین سے جمع کرتے ہوں گے یا مرے ہوئے جانوروں کے جسموں سے اٹھا لاتے ہوں گے۔ لیکن پتہ یہ چلا کہ پرندوں کی کئی قسمیں ایسے بال مختلف ممالیہ جانوروں کے جسموں سے باقاعدہ اکھاڑ کر جمع کرتی ہیں۔
امریکی اورنیتھالوجسٹ کے مشاہدات
امریکا کی الینوئے یونیورسٹی کے پرندوں سے متعلق حیاتیاتی علوم کے ایک ماہر (اورنیتھالوجسٹ) ہینری پولاک نے ایک دن دیکھا کہ بندر سے ملتے جلتے رَیکُون نامی ایک ممالیہ جانور کو کھانا کھاتے ہوئے ایک ایسی چڑیا تنگ کر رہی تھی، جو بار بار اس کی کھال پر چونچ مار کر اس کے بال کھینچ رہی تھی۔
اس پر ہینری پولاک سوچنے لگے کہ وہ چڑیا ایسا کیوں کر رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ پرندوں کی اپنے گھونسلے بنانے سے متعلق نفسیات کا باقاعدہ سائنسی مطالعہ کیا جائے۔
کبوتر بازوں کا سب سے بڑا عالمی تجارتی میلہ جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں
پھر ہینری پولاک اور ان کے ساتھیوں کی ایک پوری ٹیم نے قدرتی ماحول میں مختلف پرندوں اور یوٹیوب پر ایسے پرندوں کے بےشمار ویڈیو کلپس کا مطالعہ کیا۔ پتہ یہ چلا کہ بہت سے پرندوں میں اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے زندہ جانوروں کی کھال سے بال چرانے کا عمل بہت عام ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ ایسے 'بال چور‘ پرندوں کا نشانہ اکثر وہ ممالیہ جانور بنتے ہیں، جن کی کھال اور اس پر بال خاص طور پر نرم اور آرام دہ ہوتے ہیں، جیسے مثلاﹰ کسی لومڑی کے۔
ایک نئی اصطلاح
ہینری پولاک اور ان کے ساتھیوں کی ریسرچ کے بعد بریٹ وٹنی نامی ایک اور معروف اورنیتھالوجسٹ نے بھی پرندوں کے ایسے ہی رویوں کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔ اس دوران یہ بھی طے ہو گیا کہ کئی پرندے خاص طور پر لمبے نرم بالوں والے کتوں کے بال چرانے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔
نیکی کا بدلہ نیکی: کوے کا تحفہ زیر بحث
گزشتہ برس ڈچ سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اگر کتوں کے بالوں میں جوئیں پڑی ہوں، تو پرندے ان کے بال چرانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی صورت میں ان بالوں کو لگی جوئیں اور دیگر طفیلی جرثومے پرندوں اور ان کے بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
طوطے صابر، شاطر اور اقتصادی منصوبہ ساز ہوتے ہیں، نئی تحقیق
اس کے علاوہ کئی پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرغیوں اور بطخوں وغیرہ کے پروں اور بھیڑ بکریوں کے نرم بالوں کو چرانا پسند کرتے ہیں۔
اس ریسرچ کا ایک سائنسی نتئیجہ یہ بھی نکلا کہ ماہرین نے 'بال چور‘ پرندوں کے اس رویے کے لیے ایک باقاعدہ اصطلاح بھی ایجاد کر لی ہے، جو 'کلَیپٹوتریچی‘ (Kleptotrichie) کہلاتی ہے۔ یہ اصطلاح یونانی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے: kléptein کے معنی چوری کرنا اور تریچی thrix سے نکلا ہے، جس کے معنی بال ہیں۔
الیکزانڈر فروئنڈ (م م / ا ا)