آئیوری کوسٹ میں اضافی امن دستوں کی تعیناتی
6 جنوری 2011عالمی ادارے کی امن فوج سے متعلق نگران عہدیدار Alain Le Roy نے اس بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس بارے میں خبردار کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے امن مشن کو آئیوری کوسٹ کے موجودہ سیاسی بحران کے سبب وہاں زیادہ سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ متنازعہ صدر لاراں باگبو اور عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے والے صدر الاسان وتارا کے مابین سیاسی رسہ کشی اور تناؤ ہے۔
اقوام متحدہ کے فوجی امن مشن کے سربراہ Le Roy نے آئیوری کوسٹ میں نسلی فسادات پھوٹنے کے امکانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جہاں دو گروپوں کے مابین تازہ ترین جھڑپوں میں ملک کے مغربی حصے میں سات افراد کی ہلاکت کی رپورٹیں بھی ملی ہیں۔
آئیوری کوسٹ میں اقوام متحدہ کا فوجی امن مشن UNOCI کے نام سے کام کر رہا ہے۔ اس کے اہلکاروں کی طرف سے پہلے ہی باگبو اور وتارا کی سیاسی دشمنی کی بھینٹ چڑھ کر مرنے والے انسانوں کی تعداد 180 بتائی جاتی ہے۔
اس سے قبل اس عالمی فوجی مشن کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ آئیوری کوسٹ میں لاراں باگبو کی حامی قوتیں آبیجان کے قریب ہی واقع ایک ایسے علاقے تک امن فوجیوں کی رسائی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں، جہاں ممکنہ طور پر ہلاک شدگان کی ایک اجتماعی قبر بھی ہو سکتی ہے۔
یو این پیس کیپنگ فورس کے سربراہ لی رَوئے نے کہا ہے کہ آئیوری کوسٹ کے لیے اضافی امن فورس کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ ان فوجیوں کو آبیجان میں وتارا کے ہیڈ کوارٹر کی حفاظت کے لیے خصوصی طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
ادھر 28 نومبر کو آئیوری کوسٹ میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے گولف ہوٹل میں محصور وتارا اور ان کے کیمپ کو اقوام متحدہ کی امن فورس کے 800 فوجیوں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ ایلاں لی رَوئے کے بقول، ’’ہمیں اضافی کام بھی انجام دینا ہیں۔ مثلاً گولف ہوٹل کی نگرانی، اس کے لیے وہاں تعینات عارضی دستے کو بھی نئے دستے سے بدلنا ہوگا۔ ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لیے ہمیں 1000 سے 2000 کے درمیان اضافی فوجی درکار ہوں گے۔‘‘
یاد رہے کہ آئیوری کوسٹ کے پڑوسی ملک لائبیریا میں تعینات اقوام متحدہ کے امن دستے کی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ یو این امن فورس کے فوجیوں کی جگہ 500 پاکستانی سپاہی لائبیریا میں تعینات کیے جا چکے ہیں۔ آئیوری کوسٹ میں اقوام متحدہ کے نئے اضافی دستوں کو شامل کر کے کُل 9500 امن فوجی تعینات ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک