آتش فشانی کےاثرات تھم گئے، پروازیں بحال ہونے کی امید
25 مئی 2011خبر رساں ادارے روئٹرز نے سیفٹی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس آتش فشاں سے مزید دھواں برآمد نہیں ہو رہا ہے۔ اس آتش فشاں سے نکلنے والے راکھ کے بادلوں کی وجہ سے آج صبح جرمنی نے بھی اپنے تین اہم شہروں کے ایئر پورٹ بند کر دیے تھے۔ اگرچہ بریمن اور ہیمبرگ کے ہوائی اڈے کھول دیے گئے ہیں تاہم برلن کے دونوں ہوائی اڈے ابھی تک بند ہیں۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ ہوائی اڈے بھی آج کام کرنا شروع کر دیں گے۔
جرمن وزیر برائے ٹرانسپورٹ Peter Ramsauer نے ایک مقامی ٹیلی وژن کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ صورتحال بہتر ہو رہی ہے اور آج شام سے پروازیں معمول کے مطابق شروع کر دی جائیں گی،’ سکیورٹی ہماری اولین ترجیح ہے۔ لیکن میں پر امید ہوں کہ آج ہی پروازوں کا سلسلہ بحال ہو جائے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس کے واقعے کے بعد جرمن حکومت نے ایسی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی، جس کی وجہ سے انہیں کافی مدد ملی۔
جرمنی کے علاوہ کئی دیگر ملکوں میں بھی پروازوں کا سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔ برطانوی موسمیاتی دفتر کے مطابق،’ آتش فشاں سے راکھ کے بادل نکلتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ رک گیا ہے‘۔ بتایا گیا ہے کہ عالمی وقت کے مطابق صبح تین بجے کے بعد سے یہ سلسلہ رکا ہوا ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دوبارہ شروع نہیں ہوگا۔
برطانوی موسمیاتی دفتر کے مطابق اس حوالے سے حتمی اعلان ارضیاتی ماہرین ہی کریں گے کہ آتش فشانی کا سلسلہ تھم گیا ہے اور دھوئیں کے مزید بادل فضا میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس آتش فشانی کے باعث گزشتہ روز یورپی ممالک میں پانچ سو پروازیں منسوخ کی گئیں جبکہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک اسکاٹ لینڈ تھا۔
ہفتے کو Grimsvotn نامی آتش فشاں پھٹنے کے نتیجے میں راکھ کے بادل بیس کلو میٹر کی اونچائی تک پہنچ گئے تھے۔ یہ آتش فشانی 1873ء کے بعد شدید ترین تھی۔ گزشتہ برس آئس لینڈ کے ایک اور آتش فشاں Eyjafjoell کے پھٹنے کی شدت بھی اس سے کم تھی۔ لیکن گزشتہ برس کے واقعے کے نتیجے میں چھ روز تک یورپی فضائی حدود مکمل طور پر بند کر دی گئی تھی جبکہ فضائی صنعت کو مجموعی طور پر 1.7بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد