1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آرمڈ فورسز ایکٹ کی شقیں سپریم کورٹ میں چیلنج

20 جولائی 2011

پاکستان میں تینوں مسلح افواج کے بعض قوانین کو آئین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کے منافی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1207n
تصویر: Abdul Sabooh

ان قوانین کو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف پر حملوں کے الزام میں فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے چار سویلین اور دو سابق فوجی اہلکاروں نے دو الگ الگ آئینی درخواستوں کے ذریعے چیلنج کیا ہے۔ درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ حکومت کو ہدایت کی جائے کہ وہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق دینے کے لیے متعلقہ قوانین میں ترمیم کرے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آرمی اور ایئر فورس کے ایکٹ جبکہ نیوی کے آرڈیننس میں ترمیم کرتے ہوئے ایک آزاد ملٹری ٹربیونل قائم کیا جائے، جیسا کہ پڑوسی ملک بھارت نے 2007ء میں قائم کیا تھا اور جس طرح امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں بھی اس حوالے سے قوانین لاگو ہیں۔

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک لارجر بینچ بھی تشکیل دیا جائے، جو انہیں دی گئی سزاؤں اور اب تک کیے گئے فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکے۔ ان آئینی درخواستوں کی تیاری میں شامل سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب کسی ملک کا آئین موجود ہو، کام کر رہا ہو اور معطل بھی نہ ہو تو آئین سے ہٹ کر کسی کو سزا دینا، ہم اس کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو آئین کے مطابق ہو۔‘‘

25 دسمبر سن 2003ء کو راولپنڈی میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے قافلے کو دو بڑے خود کُش حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا
25 دسمبر سن 2003ء کو راولپنڈی میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے قافلے کو دو بڑے خود کُش حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھاتصویر: AP

انہوں نے مزید کہا کہ ’’مسلح افواج کے بعض قوانین بین الاقوامی معاہدوں اور انسانی حقوق کے منافی ہیں۔ جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ موجود ہیں، تو انہیں اپیل کا حق کیوں نہیں دیا جاتا۔ ہر شخص کو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق ہونا چاہیے۔‘‘

سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں میں وفاقی حکومت کو سیکرٹری قانون اور دفاع کے ذریعے فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجی قوانین میں کی گئی ترامیم کے ذریعے عام لوگوں کو بھی فوج کے قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے، جو کہ آئین کی بنیادی شقوں کی خلاف ورزی ہے اور ان امتیازی قوانین کو ختم کیا جانا چاہیے۔

سابق جج اور قانون دان طارق محمود کے مطابق ’’اس طرح کے معاملات کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاتا ہے لیکن وہاں ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جو معاملات افواج پاکستان کی ملازمت سے متعلق ہیں، وہاں پر لوگ انفرادی طور پر ریلیف نہیں لے سکتے۔ یہ انفرادی مقدمات کی بات ہے۔ اس سے ہٹ کر یہ ہو سکتا ہے کہ آرمی ایکٹ بھی دوسرے قوانین کی طرح ملک کا ایک قانون ہے، تو اسے قانون کی حد تک چیلنج کیا جا سکتا ہے کہ اس کی فلاں شقیں آئین سے متصادم ہیں اور اگر یہ ثابت ہو جائے تو عدالتوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ ایسے قوانین کو ختم کر دیں ۔‘‘

ادھر گزشتہ مئی میں اسلامی شدت پسند تنظیم حزب التحریر کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں گرفتار بریگیڈیئر علی خان کے وکیل کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کرنے کے لیے 32 دن کی مقررہ مدت گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان کے مؤکل پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں رہا کیا گیا ہے۔ وکیل کرنل انعام کے مطابق بریگیڈیئر علی خان کی حراست اب غیر قانونی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور وکلاء حلقے ماضی میں بھی فوجی قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں