1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریا کے الیکشن میں انتہائی دائیں بازو کے امیدوار کی ’شکست‘

4 دسمبر 2016

آسٹریا کے صدارتی انتخابات میں فریڈم پارٹی نے اپنے امیدوار نوربرٹ ہوفر کی شکست تسلیم کر لی ہے۔ تازہ ترین جائزوں کے مطابق ہوفر گرین پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اليگزينڈر فان ڈیئر بيلن سے کافی پیچھے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Tip4
Österreich Präsidentschaftswahlen Heinz-Christian Strache
تصویر: Reuters/H. P. Bader

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے آسٹرین میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ آسٹریا میں چار دسمبر بروز اتوار منعقد ہوئے صدارتی انتخابات کے ایگزٹ جائزوں کے مطابق گرین پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اليگزينڈر فان ڈیئر بيلن اپنے حریف سیاستدان نوربرٹ ہوفر پر واضح برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔

آسٹرین صدارتی الیکشن: بائیں بازو کا مقابلہ عوامیت پسندی سے

یورپ میں دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کی وجہ عالمگیریت سے خوف

آسٹریا میں صدارتی انتخابات کے نتائج منسوخ

ان جائزوں کے مطابق بہتر سالہ فان ڈيئر بيلن نے 53.6 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل کر لی ہے جبکہ مہاجرین مخالف سیاستدان ہوفر پر 46.4 فیصد ووٹروں نے اعتماد کا اظہار کیا۔ اس الیکشن کے حتمی نتائج کل پیر کے روز متوقع ہیں۔ تاہم ابتدائی جائزوں سے واضح ہوتا ہے کہ فان ڈيئر بيلن یہ الیکشن تقریباﹰ یقینی طور پر جیت جائیں گے۔

انہی جائزوں کے بعد فریڈم پارٹی نے اس الیکشن میں اپنی شکست بھی تسلیم کر لی ہے۔ فریڈم پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار ہیربرٹ کِکّل نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’’میں اليگزينڈر فان ڈيئر بيلن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘

آسٹریا میں مئی ميں منعقدہ اليکشن ميں دائيں بازو کی فريڈم پارٹی کے نوربرٹ ہوفر آزاد اميدوار اليگزينڈر فان ڈيئر بيلن سے اکتیس ہزار ووٹوں کے معمولی فرق سے ہار گئے تھے۔ تاہم انتظامی باضابطگیوں کے باعث اس الیکشن کے نتائج منسوخ کر دیے گئے تھے اور نئے الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

Österreich Präsidentschaftswahlen Alexander Van der Bellen mit Frau
پول جائزوں کے مطابق بہتر سالہ فان ڈيئر بيلن نے 53.6 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل کر لی ہےتصویر: Reuters/L. Foeger

آسٹریا کے اس الیکشن میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوفر کی شکست کے باعث یورپی یونین کے رہنماؤں کو اطمینان ہو جائے گا کیونکہ بریگزٹ اور امریکا میں ری پبلکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ایسے اندازے لگائے جا رہے تھے کہ یورپ میں بھی عوامیت پسند سیاستدان کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔

ہوفر نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب کر لیے گئے تو وہ روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری لاتے ہوئے یورپی یونین کی طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں گے۔

کئی مبصرین نے خدشات ظاہر کیے تھے کہ اگر آسٹریا میں ہوفر کامیاب ہوئے تو اس کا اثر دیگر یورپی ممالک کی سیاست پر بھی پڑے گا اور جرمنی، فرانس اور ہالینڈ میں ہونے والے انتخابات میں بھی عوام دائیں بازو کے عوامیت پسند سیاستدانوں کی طرف مائل ہو جائیں گے۔