آسیہ بی بی توہین رسالت کی مرتکب نہیں ہوئی، شوہر کی اپیل
22 نومبر 2014آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے یہ باتیں ایک کھلے خط میں لکھی ہیں جو سترہ نومبر کو تحریر کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جمعے کو جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ خط امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے۔
آسیہ بی بی کو پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات ادا کرنے کے الزام پر چار برس قبل سزائے موت سنائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ یہ سزا برقرار رکھتے ہوئے ان کی ممکنہ رہائی یا سزائے موت کو سزائے قید میں بدلنے کی امیدوں کو ختم کر دیا تھا۔
عاشق مسیح نے اپنے کھلے خط میں پاکستان کے صدر ممنون حسین سے درخواست کی ہے کہ وہ آسیہ بی بی کو معاف کر دیں اور انہیں فرانس جانے کی اجازت دیں۔
انہوں نے لکھا ہے: ’’ہم اس بات پر قائل ہیں کہ آسیہ بی بی پھانسی سے اسی صورت میں بچ پائیں گی اگر صدر (ممنون) حسین انہیں معافی دے دیں۔ کسی کو ایک گلاس پانی پینے پر قتل نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
فرانس کے دارالحکومت پیرس کی میئر این ہیڈالگو کہہ چکی ہیں کہ شہر کے دروازے آسیہ بی بی اور ان کے خاندان کے لیے کھلے ہیں۔ عاشق مسیح کے مطابق آسیہ بی بی نے پیرس کی میئر، پیرس کے عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کا تہہ دِل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کی اہلیہ توہین رسالت کی مرتکب نہیں ہوئیں۔
پیرس کی میئر نے بھی گزشتہ دِنوں پاکستان کے صدر ممنون حسین سے درخواست کی تھی کہ وہ آسیہ بی بی کو معاف کر دیں۔ فرانس کے اعلیٰ اپوزیشن رہنما برُونو ریتائیلیاؤ نے رواں ہفتے صدر فرانسوا اولانڈ سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کے لیے کہا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق عاشق مسیح اپنے پانچ بچوں کے ساتھ چھپ چھپ زندگی گزار رہے ہیں۔
آسیہ بی بی کا مقدمہ جون 2009ء میں اٹھا تھا، جب کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اسے پانی لانے کے لئے کہا گیا تھا۔ تاہم وہاں موجود مزدور مسلمان عورتوں کے ایک گروپ نے یہ کہتے ہوئے اس پر اعتراض کیا تھا کہ مسیحی ہونے کی وجہ سے وہ پانی کے گھڑے کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ابھی تک کسی بھی فرد کو توہین رسالت کے الزام پر پھانسی نہیں دی گئی، تاہم اس مقدمے سے اس مسلم ریاست کے متنازعہ قوانین ایک مرتبہ پھر موضوع بحث بن گئے ہیں۔ خبررساں ادارے اے ایف پی نے انسانی حقوق کے گروپوں کے حوالے سے بتایا کہ ایسے قوانین پاکستان جیسے ملک میں انتہاپسندی کو ہوا دیتے ہیں، جہاں شہری پہلے ہی طالبان کے پے درپے دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہیں۔