آسیہ بی بی کی سزائے موت برقرار رکھنے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مذمت
16 اکتوبر 2014خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ لاہور کی ایک عدالت نے جمعرات کے دن آسیہ بی بی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسیحی ملزمہ کے وکیل نے عہد کیا ہے کہ وہ اعلیٰ عدالت سے رجوع کریں گے۔ پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو نومبر 2010 میں توہین رسالت کے متنازعہ قانون کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی۔
اس غیر مسلم خاتون پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ پیغمبر اسلام کی ’شان میں گستاخی‘ کی مرتکب ہوئی تھی۔ تاہم ملزمہ کا کہنا ہے کہ اس پر مسلمان ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور جب اس نے انکار کر دیا تو اسے مقدمے میں پھنسا دیا گیا۔ پاکستان کے اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی کا مؤقف ہے کہ وہ ’توہین رسالت‘ کی مرتکب نہیں ہوئی ہے۔
آسیہ بی بی کے وکیل شاکر چوہدری نے اے ایف پی کو بتایا، ’’لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپیل کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن اب ہم سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس عدالتی فیصلے کو ایک بڑی نا انصافی قرار دیتے ہوئے اس خاتون کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس واچ ڈاگ ادارے کے ایشیائی ڈائریکٹر ڈیوڈ گریفیفس نے کہا ہے کہ اولین تو اس خاتون کو سزا نہیں دینا چاہیے تھی۔ اے ایف پی کو جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے مزید کہا، ’’آسیہ بی بی کے مقدمے کی شفافیت کے بارے میں تحفظات ظاہر کیے جاتے ہیں۔ سزائے موت کے انتظار میں اس خاتون کی قید تنہائی مبینہ طور پر ان کی ذہنی اور جسمانی صحت میں بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی گزشتہ چار برس سے قید میں ہے۔
لاہور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جمعرات کے دن جب لاہور ہائی کورٹ نے آسیہ بی بی کی درخواست خارج کی، تو کمرہ عدالت کے باہر موجود قاری سلیم اور ان کے حامیوں نے خوشیاں منائیں۔ یاد رہے کہ قاری سلیم نے ہی آسیہ بی بی کے خلاف ’توہین رسالت‘ کی ابتدائی شکایت درج کرائی تھی۔ مذہبی نعرے لگاتے اپنے حامیوں کے درمیان موجود قاری سلیم نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس عدالتی فیصلے پر ہم جلد ہی مسلمان بھائیوں میں مٹھائی تقسیم کریں گے۔‘‘
انسانی حقوق کے ادارے پاکستان میں توہین رسالت و مذہب کے سخت قوانین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں اکثر اوقات ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے اس متنازعہ قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔