احمد آباد بم دھماکے، مسلمان پھر خوفزدہ
28 جولائی 200826 جولائی ہفتے کے روز مغربی بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں پَے در پَے کئی بم دھماکوں میں درجنوں ہلاکتوں کے بعد سے شہر کی فضا شدید تناؤ کا شکار ہے۔
مسلمان خاتونِ خانہ طاہرہ بی اُمید کر رہی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہرائے گی۔ چھ سال پہلے مشتعل ہندوؤں کے غیض و غضب کا نشانہ بننے والی حساس آبادی ناروڈا پاٹیہ میں اپنے گھر میں موجود طاہرہ بی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اُس نے ہندو مسلم فسادات سب سے پہلے اُس وقت دیکھے تھے، جب وہ خود صرف دَس برس کی تھی اور پھر سن 2002ء میں دیکھے اور یہ کہ وہ خوف کے احساس سے عاری ہو چکی ہے۔
’’ہم کب تک کتوں اور بلیوں کی طرح خوفزدہ حالت میں اور بھاگتے ہوئے زندگی گذاریں گے۔ جو ہونا ہے، سو ہونا ہی ہے، ہمیں بہرحال اپنی زندگی کی گاڑی آگے بڑھانی ہے۔‘‘
2002ء کے فسادات کی آگ اُس واقعے کے نتیجے میں بھڑکی تھی، جس میں 59 ہندو یاتری اپنی ریل گاڑی کو آگ لگنے کے باعث موت کا شکار ہو گئے تھے۔ اِس آتِش زدگی کے لئے شروع میں مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرایا گیا لیکن بعد ازاں کی جانے والی تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ یہ آگ حادثاتی طور پر لگی تھی۔
ریاست گجرات کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر کی جانے والی بہت سی تحقیقی رپورٹوں سے یہی بات سامنے آئی کہ پولیس مسلمانوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اِسی لئے ہفتے کے بم دھماکوں کے بعد فوری طور پر تمام حساس مقامات پر پولیس اور فوج کے سپاہی تعینات کر دئے گئے، تاکہ کسی بھی ممکنہ ہنگامے کو جلد از جلد روکا جا سکے۔
احمد آباد میں ہفتے کے روز کم از کم سولہ مقامات پر ہونے والے دھماکوں میں پچاس کے قریب افراد ہلاک اور 160 سے زیادہ زخمی ہو ئے ہیں۔
اِدھر جرمن اخبار فرانکفرٹر الگمائنے نے بھارت میں تازہ بم دھماکوں پر اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ اِس طرح کے ہر واقعے کے بعد مرکزی حکومت کو اِس طرح کے الزامات سننا پڑتے ہیں کہ وہ چوکنا نہیں تھی، حالانکہ یہ سب لغو سیاسی بیان بازی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سخت اقدامات کرتے ہوئے دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اِس کا اندازہ ہمسایہ ملک پاکستان کی صورتِ حال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اخبار کے مطابق چونکہ بھارت ہر معاملے میں پاکستان سے الگ نظر آنا چاہتا ہے، اِس لئے اِس معاملے میں بھی اُسے پاکستان کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہییں۔