اسرائیل اور فلسطینی مذاکرات کی میز پر لوٹیں، جرمنی
17 نومبر 2014جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے اسرائیل کے آباد کاری کے منصوبوں اور فلسطینیوں کی جانب سے اپنے ریاستی وجود کو یکطرفہ طور پر تسلیم کروانے کے منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے فریقین پر زور دیا کہ وہ کسی بھی طرح کے ایسے یکطرفہ اقدامات سے گریز کریں جن کے نتیجے میں امن مذاکرات کی بحالی کا کوئی بھی موقع ضائع ہو سکتا ہو۔
انہوں نے دوبارہ جولائی، اگست کی غزہ کی جنگ سے پہلے کی صورتِ حال تک پہنچنے سے خبردار کیا۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔‘‘
شٹائن مائر نے اُمید ظاہر کی کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے حالات جلد ہی سازگار ہو جائیں گے۔ خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن بات چیت امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی اس حوالے سے دھواں دھار سفارتی مہم کے باوجود رواں برس اپریل میں رک گئی تھی۔
جرمن وزیر خارجہ نے اتوار کو یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کہا: ’’اِن دنوں وقت پھر سے بہت مشکل ہے اور ہمیں اس پر تشویش ہے۔‘‘
انہوں نے یروشلم اور اس کے گرد و نواح میں ہفتوں سے جاری بے چینی کے بعد خطے کا دورہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران وہاں پتھراؤ، عام شہریوں پر گاڑیاں چڑھا دینے، چاقوؤں سے حملوں اور فائرنگ جیسے پرتشدد واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق شٹائن مائر نے کہا: ’’ہماری تشویش یہ رہی ہے کہ ایک بہت ہی مشکل سیاسی تنازعہ مذہبی رخ اختیار کر رہا ہے۔‘‘
دوسری جانب بینجمن نیتن یاہو نے جرمنی سمیت ایران کے ساتھ بات کرنے والی چھ عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ تہران حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کریں جو ان کے بقول اسرائیل، یورپ اور عالمی امن کے لیے برا ہو گا۔
انہوں نے کہا: ’’میں یہ بات فائیو پلس وَن اور ایران کے درمیان مذاکرات کی بحالی سے ایک دن پہلے کہہ رہا ہوں، ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت تک پہنچنے دینا ایک بڑی غلطی ہو گی۔‘‘
نیتن یاہو نے خبردار کیا کہ ایران چند مہینوں کے اندر اندر جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ انہوں نے کہا: ’’ایک نقصان دہ معاہدے کا متبادل جنگ نہیں بلکہ پابندیوں کو جاری رکھنا ہے۔‘‘
اس حوالے سے شٹائن مائر کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ معاہدہ ہوا تو وہ ذمہ دارانہ ہی ہو گا۔