اسرائیل میں مسجد نذر آتش
3 اکتوبر 2011پولیس کے ترجمان مکی روزن فیلڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ مشتبہ افراد کی ایک بڑی تعداد گلیل علاقے میں واقع ایک گاؤں Tuba Zangaria کی ایک مسجد میں داخل ہو گئی۔ مسجد کی دیواروں اور قالینوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی پولیس نے اس واقعے کو’یہودی آباد کاروں کی غیر قانونی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔ یہ وہ اصطلاح ہے، جو عام طور پر مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے رد کر دیا ہے۔ ان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’اس واقعے کی تصویریں چونکا دینے والی ہیں اور ایسے واقعات کی اسرائیلی ریاست میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’یہ اسرائیلی ریاست کی اقدار کے منافی اقدام ہے، یہ ایسا ملک ہے، جہاں مذہب اور عبادت کی آزادی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔‘‘
اسرائیلی انتہا پسندوں کی طرف سے مسجد کی دیوار پر لفظ ’پالمر‘ بھی لکھا گیا ہے۔ یہ لفظ اسرائیلی آباد کار ’آشیر پالمر‘ کے ذات سے جڑا ہوا ہے، جو مبینہ طور پر فلسطینوں کی طرف سے اپنی کار پر پتھراؤ کے نتیجے میں مغربی کنارے کے علاقے میں اپنے نومولود بیٹے کے ہمراہ 23 ستمبر کو ہلاک ہو گیا تھا۔
عام طور پر یہودی آباد کاروں کی طرف سے اس طرح کے زیادہ تر حملے مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی گلیل کے علاقے میں ایک عرب اسرائیلی گاؤں Ibtin میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔
پولیس کے مطابق اس واقعے کے بعد گاؤں کے لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے اور ٹائر جلاتے ہوئے ایک سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کر دینے کی کوشش کی۔ علاقے میں پولیس کے ترجمان روزن فیلڈ کے مطابق وہاں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے گاؤں کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک