1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی عربوں کے لیے فلسطینی ٹی وی چینل کو مشکلات کا سامنا

مقبول ملک23 جولائی 2015

اسرائیل کی آبادی کا پانچواں حصہ عربوں پر مشتمل ہے، جن کے لیے حال ہی میں مغربی کنارے کے ایک فلسطینی ادارے نے ’فلسطین 48‘ کے نام سے ایک سیٹلائٹ ٹی وی چینل کا آغاز کیا مگر اب اس ٹیلی وژن کا اسٹوڈیو بند کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1G3kc
اس فلسطینی سیٹلائٹ ٹی وی چینل کا آغاز خاص طور پر اسرائیلی عربوں کے لیے کیا گیا ہےتصویر: Reuters/A. Awad

مغربی اردن کے فلسطینی علاقے میں راملہ سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اب یہ ٹیلی وژن چینل ایک کار پارکنگ کی جگہ سے اپنے لائیو نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ادارہ ابھی اپنی نشریات ہر روز چوبیس گھنٹے جاری رکھنے کا اہتمام بھی نہ کر پایا تھا کہ اس کا اسٹوڈیو بند کر دیا گیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس ٹی وی چینل کا نام ’فلسطین 48‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کے نام میں 48 کا عدد دراصل 1948ء کے اس سال کا حوالہ ہے جب اسرائیلی ریاست وجود میں آئی تھی اور فلسطینیوں کی بے دخلی اور مہاجرت شروع ہوئی تھی۔

اس ٹی وی چینل کا آغاز اسرائیلی ریاست اور صدر محمود عباس کی قیادت میں خود مختار فلسطینی انتظامیہ کے مابین کھچاؤ کے شکار تعلقات کا غماز بھی ہے، اور وہ بھی ایسے وقت پر جب ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کی جلد بحالی کا امکان انتہائی کم ہے۔

یہی ٹی وی چینل ان بہت پیچیدہ تعلقات کی نشاندہی بھی کرتا ہے، جو عرب اسرائیلی تنازعے کے باعث بکھری ہوئی فلسطینی آبادی اور اسرائیل کے 1.7 ملین عرب شہریوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ یہ اسرائیلی عرب شہری ان فلسطینیوں کی نئی نسل ہیں، جو 1948ء کے بعد بھی اسرائیل ہی میں مقیم رہے تھے اور آج ان کا اسرائیل کی قومی آبادی میں تناسب قریب 20 فیصد بنتا ہے۔

’فلسطین اڑتالیس‘ نامی نشریاتی ادارے کو چلانے کا کام مغربی اردن کے علاقے میں قائم ایک ادارہ، فلسطینی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کرتا ہے۔ اس ادارے کے سربراہ ریاض حسن کہتے ہیں، ’’ہم سب (فلسطینی) ایک ہی قوم ہیں۔ ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں اور ابلاغ کی ضرورت ہے۔‘‘

USA Mittlerer Osten Friedensgespräche Benjamin Netanyahu und Mahmoud Abbas
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو (دائیں) اور فلسطینی صدر محمود عباس: دو طرفہ مذاکرات کی جلد بحالی کا امکان ابتہائی کم ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اس ٹی وی چینل کا آغاز جون میں کیا گیا تھا۔ اس ادارے کی نشریات شروع ہونے کے محض چند ہی دنوں بعد اسرائیلی حکومت نے اس کا الناصرہ میں قائم اسٹوڈیو بند کر دیا تھا۔ اسرائیلی حکام نے اس کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ اس کی فنڈنگ غیر اسرائیلیوں کی طرف سے کی جا رہی تھی، مطلب تھا مغربی کنارے پر حکومت کرنے والی فلسطینیوں کی خود مختار انتظامیہ۔

جب سے اس ٹی وی چینل کا اسٹوڈیو بند ہوا ہے، یہ ادارہ مغربی اردن کے علاقے میں ایک ہوٹل کی پارکنگ سے اپنے ایک عارضی اسٹوڈیو کے ذریعے اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہاں سے اس ادارے کی نشریات سیٹلائٹ کے ذریعے اسرائیل اور عرب دنیا میں دیکھی جا رہی ہیں۔

اس ٹیلی وژن چینل کے ایک مارننگ شو کے میزبان عرب اسرائیلی اداکار درید لداوی بھی ہیں، جو روانی سے انگریزی، عربی اور عبرانی بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر آپ کے پاس اپنا سیٹلائٹ ہو تو پھر کوئی سرحدیں باقی نہیں رہتیں۔‘‘

اس فلسطینی نشریاتی ادارے کو درپیش حالات کے حوالے سے ایک عرب اسرائیلی تجزیہ کار محمد دراوشی کہتے ہیں، ’’اگر اسرائیل اپنے عرب شہریوں کے دل و دماغ کے بارے میں کوئی تشویش رکھتا ہے، تو اسے الگ تھلگ کرنے اور امتیازی رویوں کی سوچ ترک کرنا ہو گی۔ اسے اپنے عرب شہریو‌ں کو گلے لگانا ہو گا، بجائے اس کے کہ وہ اسرائیلی عربوں اور ان کے مغربی کنارے اور غزہ میں رہنے والے فلسطینی بھائیوں کے درمیان کھڑا ہو جائے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید