اسلام آباد میں لانگ مارچ: آزادی کے دن، زندگی مفلوج
14 اگست 2014حکومت کی عمران خان اور طاہر القادری کو اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ تک آنے کی اجازت دینے کی اطلاعات کے باوجود سکیورٹی انتظامات میں کسی قسم کی نرمی دکھائی نہیں دیتی۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب یوم آزادی کے دن اتنے بڑے ہیمانے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے جمعرات کو شہر کے مخلتف مقامات کا دورہ کیا اور حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے دارالحکومت کو دیگر شہروں سے ملانے والی شاہراہوں کشمیر ہائی وے، ایکسپریس وے سمیت شہر کے دیگر اہم مقامات پر سکیورٹی انتظامات اور پولیس، رینجرز اور ایف سی کے اہلکاروں کی تعیناتی کا معائنہ کیا۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس و سیکرٹریٹ، ارکان پارلیمنٹ کی سرکاری رہائش گاہوں (پارلیمنٹ لاجز)سپریم کورٹ کے علاوہ دیگر اہم سرکاری دفاتر اور ڈپلومیٹک انکلیوو پر مشتمل علاقے ’’ریڈ زون‘‘ کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں فوج کے جوان بھی ڈیوٹی پر معمور اور گشت کرتے نظر آ رہے ہیں۔
بدھ کی شب اسلام آباد میں طویل دورانیے کی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ کوئی گروہ اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبات رکھے اور ان کے پورے نہ ہونے پر دارالحکومت پر یلغار کر دے۔
انہوں نے طاہرالقدری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’وہ بچوں اور عورتوں کی شیلڈ لے کر باہر آ رہے ہیں۔ اتنی بہادری ہے ان میں، یہ کسی مہذب معاشرے میں ہوتا ہے؟ اب حکومت ان کے تشدد کو روکے بھی اور خدانخواستہ اگر ہمارے کسی بچےکسی بہن یا ماں کو کچہ ہو جس طرح پہلے ہوا تو ہماری ذمہ داری اور اگر وہ پورا نظام مفلوج کر دیں تو بھی زمہ دار حکومت ہے۔ تو ہم ایک طرف شیطان اور دوسری طرف گہرے سمندر کے بیچ پھنس گئے۔‘‘
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کسی پرتشدد ہجوم کے کہنے پر نہ تو وزیر اعظم استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی اسمبلیاں ختم ہوں گی۔
دوسری جانب جشن آزادی کے موقع پر جہاں وفاقی دارالحکومت کبھی رونقوں سے بھر پور ہوا کرتا تھا اب ایک ویرانی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ راستے بند ہونے اور شہر کے اندرونی راستوں پر سخت تلاشی کے عمل سے پریشان لوگوں کی بڑی تعداد گھروں میں ہی محبوس ہو کر رہ گئی ہے۔ شہر کے مخلتف تفریحی مقامات جو جشن آزادی پر کھچا کھچ بھرے ہوتے تھے آج وہاں لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہری حکومت اور اس کے مخالفیں دونوں کو ہی اس صورتحال کا زمہ دار سمھجتے ہیں۔
اپنے بچوں کے ہمراہ شہر کی ویران سڑکوں پر گھومتے ہوئے ایک شہری نے افسردہ لہجے میں کہا کہ ‘‘ میں اڑتیس سال سے اسلام آباد میں رہ رہا ہوں ۔ ہم اور ہمارے بچے اس دن کو رات کو خوشیاں مناتے تھےاور آزادانہ گھومتے پھرتے تھے ہر کوئی گھر پر چراغاں کرتا تھا ۔اب اڑتیس سال میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں جہاں ہزاروں کے حساب لوگ ہوتے تھے اب ویرانی ہے۔‘‘
اسلام آباد کے ایک معروف تفریحی مقام شکر پڑیاں کے قریب ایک ڈھابہ ہوٹل کے مالک نے کہا، ’’ گزشتہ ساٹھ سالوں میں جب بھی چودہ اگست آیا تو شکر پڑیاں کے مقام پر رات دو بجے تک جگہ نہیں ملتی تھی اتنی خلقت ہوتی تھی اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی کا دن ہے اور عمران خان اور طاہر القادری نے ہماری روزی پر مٹٰی ڈال دی ہے۔‘‘
حکومتی وزراء عوام کو درپیش تکالیف پر ان سے بار ہا معذرت کر چکے ہیں لیکن شہری موجودہ صورتحال کا جلد سے جلس خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب طاہر القادری نے کہا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی ایک ماہ کا سامان ساتھ لیکر اسلام آباد جا رہے ہیں۔