اعتدال پسند طالبان سے گفتگو ضروری: چانسلر ميرکل
2 دسمبر 2011جرمن چانسلر انگيلا ميرکل افغانستان ميں پائيدار امن قائم کرنے کے ليے اعتدال پسند طالبان سے بات چيت ضروری سمجھتی ہيں۔ اُنہوں نے شہر بون سے شائع ہونے والے اخبار گنيرال آنسائيگر کو ديے گئے ايک انٹرويو ميں کہا کہ افغانستان کو داخلی طور پر سياسی مصالحت کے عمل کی ضرورت ہے اور بيرونی اعتبار سے ہمسايہ ممالک کے ساتھ اُس کے تعلقات اچھے اور دوستانہ ہونے چاہييں۔ ميرکل نے کہا کہ مصالحتی عمل ميں طالبان کی شرکت کی شرط يہ ہے کہ وہ القاعدہ سے ہر قسم کے تعلقات توڑ ليں اور طاقت کا استعمال ترک کر ديں۔
جرمن چانسلر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کيا کہ پاکستان نے اپنے فوجی ٹھکانوں پر نيٹو کی بمباری کے نتيجے ميں 20 سے زائد پاکستانی فوجيوں کی ہلاکت کے بعد بون ميں پير پانچ دسمبر سے شروع ہونے والی افغانستان کانفرنس ميں شرکت سے انکار کر ديا ہے۔ ميرکل نے کہا: ’’ہم يہ کوشش جاری رکھيں گے کہ پاکستان، افغانستان کے اچھے مستقبل کے ليے کی جانے والی سعی ميں شامل رہے۔‘‘
چانسلر ميرکل نے کہا کہ مغربی ممالک ماضی ميں کی گئی دوسروں کی اس غلطی کو نہيں دہرائيں گے کہ افغانستان کی ذمہ داری خود افغانوں کو منتقل کرنے بعد اُنہيں اُن کے حال پر چھوڑ ديا جائے۔ اس ليے يہ ضروری ہے کہ سن 2014 کے بعد بھی سول امداد اور فوج اور پوليس کی تربيت کا کام جاری رکھا جائے۔ اُنہوں نے کہا: ’’مقصد ايک مستحکم افغانستان ہے، چاہے وہ جمہوريت کے مغربی تصورات سے مختلف ہی ہو۔ بون کانفرنس کا مقصد عبوری مرحلے کے دوران افغانستان کو مضبوط بنانا ہے۔‘‘
جرمن چانسلر نے سن 2014 کے آخر تک نيٹو کے تمام جنگجو فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد بھی جرمن فوجيوں کے افغانستان ميں موجود رہنے کے امکان کو بحث سے خارج قرار نہيں ديا۔ انہوں نے کہا کہ سن 2020 کے بعد تک بھی جرمن فوجی افغان پوليس اور فوج کی تربيت کے ليے افغانستان ميں متعين رہ سکتے ہيں۔ چانسلر ميرکل نے کہا کہ دوسرے فوجی مشنوں ميں بھی اس اصول پر عمل کيا جا چکا ہے کہ جرمن فوج نے جنگی کارروائياں تو ختم کر ديں، ليکن تربيت کاروں اور مبصرين کی حيثيت سے جرمن فوجی اہلکار ملک ميں تعينات رکھے گئے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی