افغانستان اور پاکستان سے متعلق بھارتی پالیسی میں تبدیلی متوقع
22 جولائی 2010تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان میں سرگرم طالبان کو جنگ سے باز رکھنے کے لئے چونکہ پاکستان اپنا اثرورسوخ استعمال کرسکتا ہے، اس لئے ایک عرصے سے عدم استحکام کے شکار افغانستان میں کوئی بھی غیر فوجی یا سیاسی حل تلاش کرنے میں پاکستان کا کردار مزید بڑھ گیا ہے۔
تاہم ایسا کوئی بھی حل جو افغانستان میں پاکستان کے حتمی اثرورسوخ پر منتج ہو اور جس سے بھارت کو اپنے تحفظ کے لالے پڑجائیں، خطے کی ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید وسیع کر دینے کا باعث ہوگا، کیونکہ یہ دونوں ہمسایہ ریاستیں پہلے ہی اپنے اپنے دگرگوں داخلی حالات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی ’’عدم استحکام کے شکار افغانستان میں جاری بین الاقوامی کھیل میں زیادہ سے زیادہ اہم مقام‘‘ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ یہ دونوں ملک افغانستان میں اپنے زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ کو اپنے ریاستی تحفظ کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ بھارت نے اس سلسلے میں نرم طاقت یا Soft Power کی سوچ کے ذریعے افغان عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ افغانستان میں سڑکوں، بجلی کی فراہمی کے لئے پاور لائنوں کی تنصیب اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بھارت اب تک 1.3 بلین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں نئے بھارتی قونصل خانوں کے قیام کے سلسلے میں پاکستان ہمیشہ ہی تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے کیونکہ پاکستان کو شبہ ہے کہ ان قونصل خانوں کے ذریعے بھارت عدم استحکام کے شکار پاکستانی صوبے بلوچستان میں گڑبڑ پھیلا رہا ہے۔
تاہم اب سال 2011ء سے اپنی افواج کی واپسی شروع کرنے کے امریکی اعلان اور افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے طالبان سے رابطوں کے لئے گرین سگنل حاصل کرنے کے بعد صورتحال بھارت کے خلاف جاتی نظر آرہی ہے کیونکہ مبصرین کا خیال ہے کہ صدر حامد کرزئی کو طالبان کی قیادت سے رابطوں کے لئے پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔
اندرونی معلومات حاصل کرنے والے عالمی ادارے Stratfor کے ڈائریکٹر برائےمشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کامران بخاری کا کہنا ہے کہ بھارت کے لئے افغانستان میں گزشتہ کئی برس بہت اچھے رہے مگر بدقسمی سے اب پہلے جیسی صورتحال نہیں رہی۔ بخاری کے مطابق اب پاکستان بھی اس کھیل میں واپس آ چکا ہے۔
منگل 20 جولائی کو افغان دارالحکومت کابل میں ہونے والی بین الاقوامی افغانستان کانفرنس میں دنیا کے 60 ممالک کے اہم حکام شامل ہوئے۔ اس کانفرنس میں صدر حامد کرزئی نے سال 2014ء تک ملکی تحفظ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے عزم کا اظہار کیا۔ کرزئی نے اس بات پر بھی عالمی رہنماؤں کی حمایت حاصل کر لی کہ وہ نہ صرف طالبان کو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کرنے کے لئے انہیں ملازمتیں فراہم کریں گے اور مالی مدد دیں گے بلکہ طالبان رہنماؤں سے بھی اس معاملے پر بات چیت کر سکتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس معاملے میں صدر حامد کرزئی کو پاکستان کی مدد درکار ہوگی۔
اس ساری صورتحال کے باجود بھارت علاقے میں اپنے اثرورسوخ سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہوگا۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اپنی سکیورٹی سے متعلق ضمانتوں کے عوض افغانستان میں سیاسی حل کے لئے معاونت کر سکتا ہے۔ کامران بخاری کے مطابق بھارت امریکہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ٹھیک ہے، وہ اپنے اس اثرورسوخ سے دستبردار ہونے کو تیار ہے جو اسے اب تک وہاں حاصل تھا، تاہم افغانستان کے کسی بھی حتمی حل کے بعد صورتحال وہ نہیں ہونی چاہیے جو طالبان حکومت کے دور میں تھی۔
دوسری طرف اس طرح کے اشارے بھی موجود ہیں کہ بھارت افغانستان میں اپنے کردار میں تبدیلی کے لئے تیار ہے۔ مثال کے طور پر بھارت افغانستان میں جاری ترقیاتی منصوبے مکمل توکر رہا ہے مگر کسی نئے بڑے منصوبے کا کوئی اعلان سامنے نہیں آ رہا۔ نئی دہلی میں قائم نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیشن نامی تھنک ٹینک کے سربراہ اُدے بھاسکر کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے نہ تو افغانستان سے نکلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور نہ ہی وہاں اپنا اثر مزید بڑھانے پر کوئی کام ہو رہا ہے۔ بھاسکر کے مطابق بھارت اب اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں حالات کس نہج پر جاتے ہیں۔
اسی حوالے سے بھارت افغان مسئلے کے حل کے لئے ایک اور اہم ملک ایران سے بھی سفارتی تعلقات بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ دونوں ہی ملک افغانستان میں کوئی بنیاد پرست یا عسکریت پسند حکومت برداشت نہیں کر سکتے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی جانب سے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر امریکہ ناخوش تو ہو سکتا ہے مگر اس سے وہ نئی دہلی کے بارے میں زیادہ سوچ وبچار پر بھی مجبور ہوسکتا ہے۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی امور کی ماہر شانتی ڈی سوزا کہتی ہیں کہ بھارتی ایرانی تعلقات میں اضافہ امریکہ کے لئے خوش کن تو ہرگز نہیں ہو سکتا تاہم اس سے یہ ضرور ممکن ہے کہ افغانستان اور پاکستان سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کی جانے لگے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک