امریکی صدر آئندہ برس پاکستان جائیں گے
21 اکتوبر 2010پاکستانی وفد میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شامل ہے۔ یہ سٹریٹیجک مذاکرات دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر معاملات پر بات چیت کے سلسلے کی کڑی ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات کو اس نہج تک مزید بہتر بنانا ہے، جس میں صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پہلو ہی شامل نہ ہو۔
ان مذاکرات میں پانی سے لے کر توانائی کے مسائل سمیت مختلف معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے۔ تاہم افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقے پر انتہاپسندوں کے خلاف کارروائیاں اس گفتگو کا اہم موضوع بتایا جا تا ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں ممالک کے سٹریٹیجک مفادات میں وسیع تر اختلافات پائے جاتے ہے، جن کے باعث سلامتی کے امور پر کسی خاص پیش رفت کی امید نہیں۔
پاکستانی وفد سے ملاقات میں باراک اوباما نے کہا کہ وہ آئندہ ماہ بھارت کے دورے کے موقع پر پاکستان نہیں جائیں گے۔تاہم انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ برس پاکستان کا دورہ ضرور کریں گے۔ انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب آصف زرداری کو وائٹ ہاؤس مدعو کرنے کا عندیہ بھی دیا، لیکن اس حوالے سے کسی مخصوص تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ اوباما کے دورہ پاکستان کو سیاسی نزاکتوں اور سکیورٹی خدشات کے تناظر میں دیکھا جا سکتا تھا۔ ساتھ ہی اس کو بھارت کے دورے سے توجہ ہٹانے کے پہلو کے طور پر لیا جا سکتا تھا۔
پاکستانی وفد سے بات چیت میں امریکی صدر نے کہا کہ ’احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی حقیقی پارٹنر شپ’ کے لئے باہمی تعلقات کا فروغ ضروری ہے۔
قبل ازیں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے واشنگٹن میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی۔ نیٹو ہیلی کاپٹروں کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی حالیہ خلاف ورزی اور ان کی کارروائی کے دوران پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے تناظر میں اس ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پینٹاگون کے ترجمان جیف موریل کا کہنا ہے کہ فوجی کمانڈروں کے مابین تعاون پہلے ہی بہتر ہو چکا ہے، لیکن اس واقعے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ