انتخابی شکست: متعدد سیاست دانوں کے استعفے
12 فروری 2024سیاسی مبصرین کے مطابق مستعفی ہونے والی ان شخصیات کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ملک کے مقتدر حلقوں سے قربت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے عام انتخابات میں شکست پر عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی بھی پارٹی عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں۔
انتخابی نتائج سیاسی جماعتوں میں شراکت داری کے متقاضی
سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'ایکس‘ پر جاری بیان میں جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ 'میں ان تمام لوگوں کا شکریہ کرتا ہوں جنہوں نے اس الیکشن میں میری حمایت کی اور میں اپنے حریفوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ میں پاکستانی عوام کی مرضی کا بے پناہ احترام کرتا ہوں لہٰذا میں نے بطور چیرمین آئی پی پی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے اور سیاست سے یکسر کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
ادھر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے عام انتخابات میں ناکامی پر جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش اور محنت کے باوجود انتخابات میں جماعت اسلامی کومطلوبہ کامیابی نہیں دلا سکے، اس لیے انتخابات میں ناکامی کو قبول کرتے ہوئے بطور امیر جماعت اسلامی استعفٰی دیتے ہیں۔
ترجمان جماعت اسلامی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے مرکزی شوریٰ کا اجلاس 17 فروری کو منصورہ میں طلب کر لیا ہے، جس میں سراج الحق کے استعفےکے بعدکی صورتحال کا جائزہ لیا جائےگا۔ یاد رہے صرف ایک دن پہلے جماعت اسلامی کے الیکشن کمیشن کے سربراہ راشد نسیم نے نئے امیر جماعت کے انتخاب اور اراکین کی رہنمائی کے لیے تین ناموں کا اعلان بھی کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے نئے امیرکے لیے اعلان کردہ تین ناموں میں سراج الحق، لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمان شامل تھے، امیرجماعت کے انتخاب کے اگلے پانچ سال کے لیے انتخابی عمل 31 مارچ 2024 تک مکمل کیا جانا ہے۔ ایک دن پہلے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے عام انتخابات کو جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔
باسٹھ سالہ سراج الحق پاکستان میں سینٹ کے رکن، خیبر پختونخوا صوبے کے سینئر وزیر اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ مارچ دو ہزار چودہ سے جماعت اسلامی کے امیر چلے آ رہے تھے۔ ان کی جماعت حالیہ انتخابات قومی اسمبلی کی کوئی بھی نشست حاصل نہیں کر سکی تھی اور وہ خود بھی الیکشن ہار گئے تھے۔
دوسری طرف جہانگیر ترین نے عام انتخابات 2024 میں این اے 149 ملتان اور این اے 155 لودھراں سے حصہ لیا تھا، این اے 149 میں انہیں آزاد امیدوار ملک عامر ڈوگر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ این اے 155 میں انہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خان محمد صدیق نے ہرا دیا تھا۔
جہانگیر ترین کے استعفی پر رد عمل دیتے ہوئے ان کی جماعت کے صدر علیم خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا کہ جہانگیر خان ترین صاحب کے فیصلے سے دلی دُکھ ہوا، وہ ہمیشہ آئی پی پی اور ہم سب کے سرپرست اعلیٰ رہیں گے۔
اکہتر سالہ جہانگیر خان ترین کا شمار ملک کے امیر ترین کاروباری افراد میں ہوتا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں عمران حکومت بنانے کے لیے ان کے تعلقات اور جہاز نے کافی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ پاکستان میں ہزاروں ایکڑ کھیتی باڑی اور کچھ بڑی شوگر ملوں اور بہت سے دوسرے کاروباری اداروں کے مالک ہیں۔ ان کے پاس پرائیویٹ طیارے ہیں جو وہ اکثر پی ٹی آئی کی اہم قیادت کو سفر کے لیے پیش کرتے رہے ہیں۔ جہانگیر ترین خان 2002 سے 2017 کے درمیان تین بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ ترین کو سابق وزیر اعظم پاکستان اور چیرمین تحریک انصاف عمران خان کا دایاں ہاتھ اور اہم ترین مشیر سمجھا جاتا ہے مگر بعد میں انہوں نے عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے سربراہ پرویز خٹک کے استعفے کی خبریں بھی پاکستان میں گردش کر رہی ہیں تاہم انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے، ''نہ سیاست چھوڑی ہے نہ پارٹی، فی الحال بریک لے رہا ہوں۔‘‘۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کے فیصلے کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام نے خدمت کا جو صلہ دیا اس کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔
پرویز خٹک قومی اسمبلی پاکستان کے سابق رکن اور سابق وزیر دفاع ہیں۔ وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین سے ہے۔ وہ یکم جنوری 1950ء کو پیدا ہوئے۔ وہ خیبر پختونخوا کے وزیر زراعت بھی رہ چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نائنٹی ٹو نیوز کے گروپ ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف نے بتایا کہ پاکستانی سیاست میں سیاست دانوں کا اپنی شکست تسلیم کرکے مستعفی ہونا قابل تحسین ہے۔ ان کے مطابق جہانگیر ترین کا خیال تھا کہ ان کے پاکستان تحریک انصاف میں کافی اثر رسوخ ہے اور پی ٹی آئی ٹوٹنے کے بعد پارٹی چھوڑنے والے ان سے آن ملیں گے اور ان کے پاس الیکٹیبلز کی بڑی تعداد ہوگی جنہیں وہ حکومت سازی میں استعمال کر سکیں گے لیکن حالیہ انتخابات میں نہ صرف انہیں بلکہ ان کی جماعت کو بھی بدترین شکست ہوئی۔ ارشاد عارب کے بقول ان کی جماعت میں صرف عبدالعلیم خان اور عون چوہدری''غیبی مدد‘‘ کی وجہ سے منتخب ہوئے لیکن ان کی کامیابیاں بھی چیلنج ہو گئیں۔'' وہ ایک کامیاب بزنس مین تو ہیں لیکن کامیاب سیاست دان ثابت نہیں ہو سکے‘‘۔
ارشاد عارف کے بقول جماعت اسلامی میں امیر جماعت من مرضی نہیں کر سکتا اس کو کڑے حساب سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سے پہلے اسلامک فرنٹ کی ناکامی کے بعد قاضی حسین احمد بھی مستعفی ہو گئے تھے لیکن ان کا استعفی منظور نہیں کیا گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور میں ہونے والا جماعت اسلامی کی مرکزی شوری کا اجلاس سراج الحق کے استعفے کو منظور کرتا ہے یا نہیں۔