1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انٹرنیٹ این ایس اے کی گرفت میں، سابق اہلکار کا بیان

کائی آلیکسانڈر شولس / مقبول ملک4 جولائی 2014

امریکی خفیہ ادارہ این ایس اے کیسے اور کس حد تک آن لائن جاسوسی کرتا ہے؟ اس بارے میں جرمن پارلیمان کی تحقیقات کے دوران نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ایک سابق اہلکار نے بتایا ہے کہ انٹرنیٹ NSA کی مکمل گرفت میں ہے۔

https://p.dw.com/p/1CVzf
تصویر: picture-alliance/dpa

وفاقی جرمن پارلیمان کی ایک تحقیقاتی کمیٹی امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی طرف سے جاسوسی کے عمل کی جو چھان بین کر رہی ہے، اس میں بیانات دینے والوں میں اس امریکی ایجنسی کے دو سابقہ اہلکار بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں اہلکار NSA کے whistleblower ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس امریکی آن لائن انٹیلیجنس ایجنسی سے متعلق خفیہ معلومات کے منظر عام پر آنے کی وجہ بنے۔

ان میں سے ایک ولیم بِنّی ہیں، جو 30 سال سے بھی زائد عرصے تک نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے لیے کام کرتے رہے۔ وہ 2001ء کے موسم خزاں تک این ایس اے سے وابستہ رہے اور اس دوران کئی سال تک وہ اس ادارے کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر بھی رہے۔ ولیم بِنّی نے جرمن پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ ان کی رائے میں این ایس اے جرمنی میں بھی الیکٹرانک کمیونیکیشن کرنے والے کسی بھی فرد کی جاسوسی کر سکتی ہے۔

انہوں نے ایک سماعت کے دوران ارکان پارلیمان کو بتایا کہ امریکا نے نائن الیون کے حملوں کے بعد عالمگیر سطح پر آن لائن نگرانی کے عمل کا آغاز کیا تھا۔ نیشنل سکیورٹی ایجنسی سے وابستہ رہنے والے دو گواہان میں سے ایک کے طور پر ولیم بِنّی نے اپنے بیان میں کہا، ’’انٹرنیٹ این ایس اے کی گرفت میں ہے۔ اس کے لیے تمام دستیاب تکنیکی امکانات استعمال کیے جاتے ہیں، کسی بھی طرح کی حدود و قیود اور قوانین کے احترام سے مبرا ہو کر۔ عمومی طریقہء کار یہی ہے۔ نجی زندگی کے تحفظ کا حق تو کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔‘‘

NSA Untersuchungsausschuss 3.7.2014 Binney
تصویر: picture-alliance/dpa

Willaim Binney نے اس خفیہ ادارے کو اس وقت خیرباد کہہ دیا تھا جب اس نے محدود اور مخصوص حالات میں جاسوسی کے بجائے لامحدود نگرانی کی پالیسی اپنائی تھی۔ تب انہوں نے اپنے اقدام کی وجہ یہ بتائی تھی کہ وسیع تر نگرانی بنیادی انسانی حقوق کی وسیع تر خلاف ورزی ہے۔ اس وقت 70 سالہ بِنّی نے اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے کئی گھنٹوں تک جرمن پارلیمانی ارکان کے درجنوں سوالوں کے جواب دیے۔

ولیم بِنّی نے یہ بھی کہا کہ امریکی حکومت نے این ایس اے کی کارکردگی میں اصلاحات کی جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہیں۔ ان کے بقول آن لائن نگرانی سے متعلق صارفین کا ڈیٹا خود این ایس اے جمع کرے یا اس کے لیے کوئی نجی کمپنیاں، بات ایک ہی ہے۔

ولیم بِنّی کے بقول این ایس اے نے دنیا بھر میں جاسوسی کے لیے 50 ہزار ایسے انٹرنیٹ آلات نصب کر رکھے ہیں، جن کے ذریعے یہ ایجنسی دیگر ملکوں کے خفیہ اداروں کے ساتھ بھی مل کر کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ اور ٹیلی مواصلاتی لائنوں کے ذریعے دنیا بھر میں جتنی بھی کمیونیکیشن ہوتی ہے، اس کے 80 فیصد حصے سے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے اہلکار اپنے ملک میں بیٹھے ہوئے ہی باخبر ہوتے ہیں۔

سماعت کے دوران بِنّی نے جرمن حکام کو خبردار کیا کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیشی کے لیے روس میں پناہ گزین این ایس اے کے سابق امریکی اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کو جرمنی لانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس طرح وہ امریکی ایجنٹوں کے ہاتھ لگ جائیں گے۔

اس سماعت کے دوران بیان ریکارڈ کروانے والے این ایس اے کے دوسرے سابق امریکی اہلکار کا نام ٹامس ڈریک ہے، جنہوں نے 2008ء تک اس ادارے کے لیے کام کیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید