ایک لڑکی کی لڑکی سے شادی: یہ کیا ’بے حیائی‘ ہے؟
31 جولائی 2020جی بات ہو رہی ہے گزشتہ دونوں ہمارے قومی میڈیا کی شہ سرخی بننے والی ایک خبر کی، جس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر ہوئی تھی، جس میں دو لڑکیوں کی آپس میں شادی کا میرج سرٹیفکیٹ مقامی عدالت نے مبینہ طور پر حقائق دیکھے بغیر جاری کر دیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے دونوں لڑکیوں کو 15جولائی کو طلب کر کے میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
راولپنڈی میں ہونے والی دو لڑکیوں کی شادی کا قصہ سوشل میڈیا میں انتہائی گرم خبر کے طور پر ہر ایک کے لیے باعث دلچسپی رہا۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ غیر انسانی رویوں اور سنگین مسائل سے دوچار نظر آتیں ہیں۔ ایسے میں ہم جنس پسندی میں دلچسپی رکھتے ہوئے تعلقات قائم کرنے کا مطلب خوفناک انجام کو آواز دینا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پسند خواتین اپنی شناخت کو مخفی رکھتی ہیں، جس کی وجوہات میں معاشرے کا ڈر، خاندانی روایات سے انحراف اور مذہبی نظام کی خلاف ورزی بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: البانیہ میں ہم جنس پسندوں کی ’تصحیح‘ کی متنازعہ تھراپی بند
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہم جنس پسند خواتین کے لیے لیسبئین کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ ہمارے معاشرے میں قابل عزت نہیں سمجھاجاتا۔ بات یہ ہے کہ حساس وپیچیدہ معاملات پر جب تک میڈیا کی جانب سے آگاہی فراہم کرنے یا مذہبی حلقوں کی جانب سے ایسے ایشو زیر بحث لا کر درست سمت متعین نہیں جی جائے گئی تو نئی نسل کے لیے ابہام دور نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر گزشتہ عرصے کے دوران پاکستان کے مختلف اخبارات کی ویب سائٹ پر شائع شدہ مواد کے مطابق عورت مارچ کرنے والی خواتین کو کچھ ایسی تنظیمیں سپورٹ کر رہی تھیں، جن کا مقصد معاشرے میں ہم جنس پسندی کو پروان چڑھانا ہے۔
جیسا کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی سابق ایم این اےعائشہ سیدکا اصرار ہے کہ مذہب میں ہم جنس پسندی کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ غیر شرعی اور انسانی فطرت کے خلاف عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ہم جنس پسند افراد کی موجودگی بہت پہلے سے ہے مگر امریکا میں شروع ہونے والی ایل جی بی ڈی تحریک نے دنیا بھر میں اس طبقے کی حوصلہ افزائی کی ہے جبکہ اسلام سمیت دنیا بھر کے کسی مذہب میں ہم جنس پسندوں کے تعلقات یا شادی کا تصور موجودہ نہیں ہے۔
مشرف دور حکومت نے اقوام متحدہ کے کنونشن میں ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ جس میں ہم جنسوں کو 'فریڈم آف چوائس‘ کے تحت آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ اس کنونشن میں حکومتی وفد کے ساتھ اپوزیشن نے بھی شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ معاہدہ پارلیمنٹ سے پاس کیا گیا، جس پر مذہبی جماعتوں نے اختلاف کرتے ہوئے بھر پور مزاحمت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب: ہم جنس پرستوں کی پہلی این جی او کا تنازعہ
ایک ماہر نفسیات نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے اس موضوع پر اپنے تجربات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فطری یا نفسیاتی مسئلہ ہے یا نہیں اس کے بارے میں دنیا بھر میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول برطانیہ میں مخلتف طبی جائزوں میں پہلے ہم جنس پسندی کو ذہنی بیماری قرار دیا تھا مگر اب اسے فریڈم آف چوائس قرار دیا جاتا ہے،''ہمارے معاشرے میں بھی ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو ہم جنس پسندی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ والدین یا دیگر رشتہ داروں کو اگر علم ہو جائے تو انہیں سخت رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم جنس پسندی میں دلچسپی رکھنے والی خواتین سے سوشل میڈیا کے ذریعہ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی اسلام کی ماننے والی ہیں لیکن اگر گھر والوں کو ان کے تعلقات کے بارے میں معلوم ہو جائے تو زندگی مشکل اور خاندان یا رشتہ داروں کی معاشرتی لا تعلقی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گھر والوں کی طرف سے شادی کا علیحدہ دباؤ رہتا ہے۔ ملک کے شہری ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے تعلقات، احساسات بیان کر نے سے قاصر ہیں۔
ہم جنس پسند خواتین کے بقول ملک کا قانون تیسری جنس کے حامل افراد کو تو پہچان دے سکتا ہے مگر انہیں آزاد زندگی نہیں فراہم کر سکتا کیوں کہ اس معاشرے میں ہر مسئلے میں مذہب کوشامل کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف بے شمار ہم جنس پسند مرد اور خواتین بھی اپنے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
ان کے توسط سے دیگر ہم جنس پسند خواتین سے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔ ایک ہم جنس پسند خاتون کے مطابق اگر گھر والوں کو ان کے جنسی رویوں کے بارے میں علم ہو جاتا تو وہ انہیں نفسیاتی مریض سمجھتے اور علاج کراتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ''ہمارا مستقبل چار دیواری کے اندر ہی قید ہے اور بہت سی ہم جنس پسند خواتین مسائل سے دوچار ہو کر خودکشی کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ اپنی شناخت کو ظاہر نہ کرنے میں ہی ہماری زندگی ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: اسلام اور ہم جنس پرستی: امام لُڈوک محمد زاہد پھر خبروں میں
ایک اندازہ کے مطابق پاکستان میں ہم جنس پسند خواتین بڑی تعداد ملک کے بڑے شہروں میں رہائش اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ جبکہ کچھ ہم جنس پسند خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنی شناحت ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے سماجی، معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو کر منشیات کے استعمال کے علاوہ اس کی فروخت جیسی غیر قانونی سرگرمیاں کا حصہ بن جاتی ہیں۔
ساتھ ہی بے روزگار ہونے کے باعث سہارے کی تلاش میں رہتی ہیں اور اس وجہ سے خاندانی نظام سے دوری اختیار کرتی جاتی ہیں۔ ملک میں کوئی بھی ادارہ، این جی او ہم جنس پسند افراد کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں بلکہ کچھ طبقے ان کی موجودگی سے بھی انکاری ہیں۔ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر بھی کوئی حکومتی یا اپوزیشن لیڈر بات کرنے کو تیار نہیں۔