بلوچستان کی ساحلی پٹی: جزائر کے ابھرنے ڈوبنے کا سلسلہ
19 ستمبر 2021پاکستان کی ساحلی پٹی 1050 کلومیٹر طویل ہے جو سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر مشتمل ہے۔ 9 ستمبر 2021 کو اوماڑہ اور کنڈ ملیر کے ساحل کے قریب چھادم کے مقام پر سمندر کی تہہ سے اچانک ایک جزیرہ ابھر آیا جو کافی بڑے رقبے پر مشتمل ہے۔ اس مقام پر اس سے پہلے تین مرتبہ سنہ 2000، 2010، اور 2013 میں بھی جزیرے ابھر چکے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی تکنیکی ٹیم کے مشیر معظم خان کے مطابق کنڈ ملیر کا یہ ساحلی مقام کراچی سے 41 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس سے کچھ ہی فاصلے پر وہ مقام ہے جہاں 1945 میں ایک ہولناک زلزلہ آیا تھا جس سے پیدا ہونے والی سونامی کے باعث ساحلی علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں جزائر کا ابھرنا
ارضیاتی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے جزیرے چھ طرح کے ہوتے ہیں ۔ یہ چھ اقسام کانٹی نینٹل، ٹائیڈل (مد و جزر)، بیریئر، اوشینک ، کورل اور آرٹی فیشل
یعنی مصنوعی ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں جوجزائر پائے جاتے ہیں وہ کورل، بیریئر اور اوشینک اقسام کے ہیں جنھیں وولکانو جزیرے بھی کہا جاتا ہے۔
اریبہ حسن سینٹر آف ایکسیلینس اِن میرین بائیولوجی کراچی یونیورسٹی میں محقق ہیں انھوں نے اس حوالے سے بتایا کہ جزیروں کے بننے میں مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں ۔ پہلا عمل آتش فشاں سے لاوا پھوٹنے کاہے جس میں پوری طاقت کے ساتھ میتھین یا کسی اور گیس کا اخراج ہوتا ہے۔
گم شدہ براعظم زیلانڈیا کے راز جلد کھول دیے جائیں گے
بلوچستان کا سارا علاقہ زلزلوں کے حوالے سے ایکٹو فالٹ زون میں ہے اور یہاں زیرِ زمین قدرتی گیس کے بڑے ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس لئے کبھی کبھار ارضیاتی حرکات کی وجہ سے زیرِ زمین پائے جانے والے ہائیڈرو کاربن یا میتھین گیس میں دباؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ جس مقام پر دباؤ بڑھتا ہے اسے سائنسی اصطلاح میں " ہاٹ سپاٹ" کہا جاتا ہے۔
یہ دباؤ جب پوری طاقت کے ساتھ زمین سے باہر نکلتا ہے تو اپنے ساتھ نرم مٹی بھی لے کر آتا ہے۔ جس سے جزیرے وجود میں آتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد جب زیر زمین گیسوں کا دباؤ کم ہوتا ہے تو یہ مٹی نرم پڑ کر بیٹھنے لگتی ہے جس سے وہ جزیرہ از خود غائب ہو جاتا ہے۔
جزیروں کے بننے میں زلزلوں کا کتنا دخل ہے؟
ماہرین ارضیات کے مطابق اچانک جزیرے ابھر آنے کی ایک اور وجہ زیر زمین پلیٹوں کی حرکات ہیں۔ مکران ٹرینچ میں عریبیئن اور یوریشن پلیٹوں کا آمنے سامنے سے ٹکراؤ ہوتا ہے جبکہ انڈین اور عربیئن ٹیکٹونک پلیٹیں پہلو بہ پہلو رگڑ کھاتے ہوئے شمال کی جانب بڑھ رہی ہیں ان تینوں پلیٹوں میں انوکھے ٹکراؤ کے باعث اس خطے میں جزیرے بنتے رہتے ہیں جنھیں زلزلہ جزیرے بھی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر گیما سمتھ مکران ٹرینچ پر ایک عرصے تک تحقیق کرتی رہی ہیں۔ جیو فزیکل جنرل میں شائع ہونے والے ان کے مقالے کا مرکز 1945 میں مکران، گوادر اور گردو نواح میں آنے والا ہولناک زلزلہ تھا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر1 .8 تھی۔ اس زلزلے سے پیدا ہونے والی سونامی نے اطراف کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی مچائی تھی۔ ڈاکٹر گیما کے مطابق ان علاقوں میں ٹیکٹونک پلیٹیں انتہائی متحرک ہیں جو کسی بھی وقت 8.2 سے زیادہ شدت کے زلزلے کا سبب بن سکتی ہیں۔
زلزلے سے جزائر بننے کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ ان میں کچھ جزائر سنگلاخ چٹانوں پر مشتمل ہیں جن میں بلوچستان کے چرنا اور استولا جزیرے قابل ذکر ہیں جو قدرت کی انمول نعمت ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمارا آبی ماحول متنوع ہے۔ یہ س جزائر سمندری حیات کی بقا اور خطے کے ایکو سسٹم کو برقر ارکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتےہیں۔
سائنسدانوں نے ’انتہائی شمالی جزیرہ‘ دریافت کر لیا
کنڈ ملیر میں اس سے پہلے کب کب جزیرے بنے؟
9 ستمبر 2021 کو کنڈ ملیر کے جس ساحلی علاقے میں جزیرہ ابھرا وہاں اس سے پہلے سنہ 1945، 2000، 2010 اور 2013 میں بھی جزائر بن چکے ہیں۔ ان میں ستمبر 2013 کو بننے والا جزیرہ زلزلے کے شدید جھٹکوں کے بعد اچانک ابھرا جس کی شدت 7.7 تھی۔ اس جزیرے کو " زلزلہ کوہ " کا نام دیا گیا جس کی لمبائی تقریبا 350 کلومیٹر تھی۔ یہ جزیرہ چھ ماہ بعد ازخود غائب ہو گیا تھا۔