1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے رہنما کی سزائے عمر قید، موت کی سزا میں تبدیل

عاطف بلوچ17 ستمبر 2013

بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مولا کی طرف سے عمر قید کی سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو رد کرتے ہوئے انہیں 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اب سزائے موت سنا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/19iba
تصویر: picture-alliance/AP

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ڈھاکا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملکی سپرپم کورٹ نے عبدالقادر مولا کی طرف سے عمر قید کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو منگل کے دن مسترد کر دیا اور جنگی جرائم کے ٹریبونل کی طرف سے اپوزیشن کے اس رہنما کو فروری میں سنائی جانی والی سزائے عمر قید کو موت کی سزا میں بدل دیا۔ اس ٹریبیونل نے پانچ فروری کو بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے نائب سیکرٹری جنرل عبدالقادر مولا کو 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران قتل، آبروریزی اور تشدد ڈھانے کا مجرم قرار دیا تھا۔

Bangladesch Ghulam Azam Urteil 15.07.2013
مولا کے حق میں نئے مظاہرے بھی ہوئے ہیںتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

چیف جسٹس مزمل حسین کی نگرانی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے مطابق مولا نے مارچ 1971ء میں اُس وقت ایک کنبے کے چار افراد کو ہلاک کرنے کا حکم جاری کیا تھا، جب پاکستانی فوج نے ڈھاکا میں کریک ڈاؤن شروع کر رکھا تھا۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل محب عالم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حتمی فیصلہ ہے‘ اور اب اس میں کسی ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ مولا کی فیملی اب صرف صدر سے معافی کی درخواست کر سکتی ہے۔

ادھر وکیل صفائی عبدالرزاق نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’سکتے‘ میں آ گئے ہیں۔ مولا اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ کیس سیاسی محرکات کی بنا پر گھڑا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی اہم اتحادی ہے۔

روئٹرز نے بتایا ہے کہ مولا کو سزا کو بدلنے پر منگل کے دن جماعت اسلامی کے متعدد کارکن سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے۔ اطلاعات کے مطابق ڈھاکا کے علاوہ چٹاگانگ اور خولنا میں بھی مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں۔ چٹا گانگ میں پانچ پولیس اہلکار اُس وقت زخمی ہوگئے، جب مظاہرین نے ایک پولیس کی ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا اور دیسی ساختہ بم پھینکے۔

بنگلہ دیش میں آئندہ پارلیمانی انتخابات اگلے برس کے اوائل میں ہونا طے ہیں۔ تاہم رواں برس کے آغاز سے ہی ملکی جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبیونل کی طرف سے جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماؤں کو خلاف چلائے جانے والے مقدمات اور سزائیں سنانے پر متعدد مرتبہ مظاہرے منعقد کیے جا چکے ہیں۔ جنوری سے اب تک ایسے ہی خونریز مظاہروں کے نتیجے میں کم ازکم ایک سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Ghulam Azam Islamist Bangladesh ARCHIVBILD Januar 2012
جماعت اسلامی کے سابق سربراہ غلام اعظمتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

جولائی میں ایک عدالت نے جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ وہ اب آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی ہے۔ اسی طرح اس اسلامی جماعت کے چھ رہنماؤں کو جنگ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیے جانے کے بعد انہیں سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ مولا کی پارٹی بنگلہ دیش کی آزادی کے خلاف تھی تاہم جماعت اسلامی اور اس کے رہنما ایسے تمام تر الزامات کو رد کرتے ہیں کہ وہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے۔

بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل میں اب تک عبدالقادر مولا کے علاوہ ابو الکلام آزاد، دلاور حسین سیدی، محمد قمر الزماں اور علی احسن محمد مجاہد کو سزائے موت دی جا چکی ہے جب کہ جماعت اسلامی کے سابق سربراہ غلام اعظم کو نوے برس کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔ ابھی اس ٹریبیونل میں سات مقدمات زیر التوا ہیں۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن کے علاوہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی اس جنگی جرائم کی خصوصی عدالت کے شفاف ہونے پر سوالات اٹھا چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید