بنگلہ دیش: ’جنگی مجرم‘ غلام اعظم کا جیل میں انتقال
24 اکتوبر 2014ڈھاکا سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ غلام اعظم کافی بیمار تھے اور ان کا ایک سرکاری ہسپتال میں علاج کیا جا رہا تھا۔ حکام کے مطابق چونکہ وہ ایک سزا یافتہ جنگی مجرم تھے، اس لیے ہسپتال میں جہاں ان کا علاج کیا جا رہا تھا، اس جگہ کو جیل کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے ملکی دارالحکومت ڈھاکا میں شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال کے ترجمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ غلام اعظم کا انتقال جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہوا۔ ان کے انتقال سے پہلے انہیں لائف سپورٹ سسٹم پر رکھا جا رہا تھا۔ ان کا انتقال ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں دل کی دھڑکن بند ہو جانے سے ہوا۔
غلام اعظم بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کہلانے والی سیاسی جماعت کے سابق رہنما تھے، جنہیں 2013ء میں ملک کی ایک خصوصی عدالت نے مجرم قرار دے دیا تھا۔ انہیں جنگی جرائم سے متعلق 61 الزامات میں 90 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ گزشتہ برس انہیں سزا سنائے جانے کے خلاف پورے ملک میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
غلام اعظم سن 2000ء تک بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما تھے اور اس پارٹی کے لیڈر اور ارکان انہیں ابھی تک اپنا روحانی رہنما مانتے تھے۔ 1971ء میں جب بنگلہ دیش ابھی سابقہ مشرقی پاکستان تھا اور وہاں مغربی پاکستان سے علیحدگی کی کوششیں جاری تھیں، اس وقت مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے امیر غلام اعظم ہی تھے۔
جب بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد ایک خود مختار ریاست کے قیام پر ختم ہوئی تو ایک اسلام پسند سیاسی پارٹی کے طور پر جماعت اسلامی کی قیادت غلام اعظم ہی کے پاس رہی تھی۔ بنگلہ دیش کا الزام ہے کہ اس کی آزادی کی نو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران پاکستانی فوج نے وہاں اپنے مقامی اتحادیوں اور مسلح گروپوں کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر تین ملین تک انسانوں کو قتل کیا تھا اور دو لاکھ عورتوں کی آبروریزی کی گئی تھی۔
تب غلام اعظم کی قیادت میں جماعت اسلامی نے سابقہ مشرقی پاکستان کی آزادی کی کھل کر مخالفت کی تھی اور پارٹی کے اس رہنما نے پاکستان کے لیے بیرونی حمایت حاصل کرنے کی خاطر مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا دورہ بھی کیا تھا۔
ڈھاکا حکومت کے مطابق آزادی کی جنگ کے دوران جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا، ان میں جماعت اسلامی کے جرائم بھی شامل تھے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی اپنے خلاف آزادی کی جدوجہد کے دوران کسی بھی طرح کے جرائم یا زیادتیوں کے ارتکاب کے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
اس پس منظر میں بنگلہ دیش میں ایک خصوصی ٹریبیونل نے غلام اعظم کو جنگی مجرم قرار دے دیا تھا جبکہ بہت سے حلقوں، خاص کر اپوزیشن سیاستدانوں کا الزام تھا کہ اس عدالت کا قیام، اس میں چلائے جانے والے مقدمے اور ملزمان کو سنائی جانے والی سزائیں سب سیاسی وجوہات کا نتیجہ تھے۔
غلام اعظم کی طرف سے انہیں سنائی گئی سزائے قید کے خلاف ایک اپیل بھی دائر کی گئی تھی اور ڈھاکا میں ملکی سپریم کورٹ میں اس اپیل کی سماعت دو دسمبر کو ہونا تھی۔