1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بگرام جیل سے رہائی پانے والے ایک پاکستانی کی کہانی

عاطف بلوچ14 اپریل 2014

پاکستانی ٹرک ڈرائیوار عمران خان نے نو برس افغانستان کی بگرام جیل میں گزارے، جہاں دوران قید اسے مارا پیٹا گیا، نیند سے محروم رکھا گیا اور ذہنی اذیت دی گئی تاہم وہ خود کو بے گناہ ہی کہتا رہا۔

https://p.dw.com/p/1Bhcy
تصویر: Getty Images

عمران خان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر 2005ء میں بم ٹرانسپورٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بگرام جیل کے حکام بھی اس شک میں مبتلا تھے کہ عمران خان بے قصور ہے۔ بتیس سالہ عمران ان چھ پاکستانی شہریوں میں شامل ہے، جنہیں گزشتہ برس نومبر میں بگرام جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ اب اس نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے دوران حراست اپنے اوپر ہونے والے مظالم بیان کیے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ 2002ء میں افغانستان میں قائم کی گئی اس جیل کا اکثر اوقات گوانتانامو بے کے بدنام زمانہ امریکی حراستی کیمپ سے موازنہ کیا جاتا رہا ہے۔ سن 2013ء میں افغان حکام نے اس جیل کا کنٹرول سنبھال کر اس کا نام بدلتے ہوئے ’پروان جیل‘ رکھ دیا تھا۔ تاہم ابھی بھی وہاں مقید غیر ملکیوں کے انچارج امریکی فوج ہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پروان جیل میں اب بھی کم ازکم 34 پاکستانی شہری قید ہیں۔

US-Truppen lassen afghanische Gefangene frei US detention center in Bagram
بگرام جیل 2002ء میں قائم کی گئی تھیتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لیے پاکستانی محقق مصطفیٰ قادری کہتے ہیں کہ عمران خان جیسے کیس دراصل امریکی حراستی پالیسیوں کا ایک ناخوشگوار پہلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ ایک اہم معاملہ ہے کہ اس طرح کے واقعات میں کبھی کبھار افراد بظاہر کسی جرم میں ملوث ہوئے بغیر ہی غلط مقام پر پہنچا دیے جاتے ہیں۔‘‘

عمران خان کا برا وقت اس وقت شروع ہوا تھا، جب وہ اور اس کا ایک دوست اپنے ایک کزن کے عیادت کے لیے پشاور سے پاکستانی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی گئے۔ وہاں ان کی ملاقات سیفو اور لالزیر نامی دو افغان شہریوں سے ہوئی، جو اپنی بیمار دادی کے علاج کی غرض سے وہاں پہنچے تھے۔ وہیں یہ دوست بن گئے اور افغان شہریوں نے عمران اور اس کے دوست کو دعوت دی کہ وہ سیر کے لیے افغان مشرقی صوبے ننگر ہار آئیں، جہاں انہیں کچھ کام کرنے کا موقع بھی مل سکے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے بتایا، ’’جب ہم وہاں (افغانستان) پہنچے تو پہلے دن ہم نے باہر جانے کی کوشش کی تاہم ہمارے میزبانوں نے ہمیں اجازت نہ دی۔ ہمیں کہا گیا کہ وہ اپنے ایک دوست کا انتظار کر رہے ہیں اور جب وہ آئے گا تو تبھی ہم باہر جا سکیں گے۔‘‘

اسی حالت میں کچھ دنوں کے انتظار کے بعد عمران اور اس کے دوست نے واپس پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تو سیفو اور لالزیر نے کہا کہ بطور مہمان وہ انہیں پاکستان بھیجنے میں مدد کریں گے۔ جب وہ ایک ٹیکسی میں واپس پاکستان جا رہے تھے تو انہیں ایک چیک پوائنٹ پر روکا گیا، تب ان کی ٹیکسی سے دھماکا خیز مواد برآمد ہوا۔ عمران کے بقول سیفو اور لالزیر کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن اسے اور اس کے دوست کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے کر بگرام جیل پہنچا دیا گیا۔

عمران خان نے بتایا کہ جیل میں اسے تنہا رکھا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ’’وہ ہمیں سونے نہیں دیتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم ایک لمحہ بھی سکون سے گزاریں‘‘۔ اس نے کہا کہ فوجیوں نے اسے مارا پیٹا بھی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

اب عمران خان خیبر ایجنسی میں واقع ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتا ہے اور اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے کا خواہشمند ہے۔ عمران کے بقول جب گزشتہ برس نومبر میں اسے بگرام جیل سے رہائی ملی تو ایک امریکی کرنل نے اس سے معافی بھی مانگی، ’’میں نے جواب دیا کہ تم نو برس اور میری زندگی برباد کرنے کے بعد معافی کیوں مانگ رہے ہو؟ میں نے کہا نہیں تھا کہ میں بے قصور ہوں؟‘‘ عمران نے مزید کہا کہ اس امریکی فوجی نے جواب میں صرف اتنا ہی کہا، ’’ہمیں معاف کر دو۔ تم ٹھیک کہتے تھے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید