بھارتی سپریم کورٹ کے جج ہی سپریم کورٹ سے غیر مطمئن
12 جنوری 2018دارالحکومت نئی دہلی سے جمعہ بارہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ان چاروں ججوں نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور اگر اس قومی ادارے کی ساکھ اور نظم و نسق کے مستقل تحفظ کو یقینی نہ بنایا گیا، تو ملک میں ’جمہوریت بھی زندہ نہیں رہے گی‘۔
بھارتی سینما گھروں میں قومی ترانہ لازمی نہیں، سپریم کورٹ
بھارت : بابری مسجد تنازعے کی حتمی سماعت ملتوی
کمسن بیوی کے ساتھ جنسی تعلق ’ریپ‘ شمار ہو گا، بھارتی سپریم کورٹ
بھارت کی جمہوری تاریخ میں آج جمعہ 12 جنوری کے روز پہلی بار ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے متعدد حاضر سروس ججوں نے مل کر نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ عدالت عظمیٰ کے کئی سینئر ججوں اور چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے مابین نہ صرف شدید اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ اس شدت میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔
اس پریس کانفرنس سے قبل عدالت عظمیٰ کے جسٹس جاستی چیلامیشور نے اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتایا، ’’چیف جسٹس نے ہمارے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم ان حقائق کو عوام کے پاس لے کر جائیں کہ ملکی سپریم کورٹ میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔‘‘ ان ججوں نے یہ بھی کہا کہ وہ چیف جسٹس مشرا کی طرف سے کی جانے والی تقسیم کار سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔
تین طلاقیں غیر آئینی ہیں، بھارتی سپریم کورٹ
ہائی کورٹ جج کی دماغی حالت کے معائنےکا حکم، سپریم کورٹ
بھارتی سپریم کورٹ کا گائے ذبح کرنے پر ملک گیر پابندی سے انکار
روئٹرز نے لکھا ہے کہ جسٹس چیلامیشور اور ان کے تین ساتھی ججوں نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں جلد ہی اپنی تشویش کا تحریری اظہار ایک مشترکہ خط میں بھی کریں گے، جو عوامی سطح پر ریلیز کیا جائے گا۔ بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا سے انتہائی حد تک نالاں ان چار ججوں میں جسٹس چیلامیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکُور اور جسٹس کوریان جوزف شامل ہیں۔