بھارتی پارلیمان میں اپوزیشن کا ہنگامہ
8 اگست 2011گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے اس پارلیمانی اجلاس کو اب تک تین بار رکوا دیا گیا ہے۔ بھارتی حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ نئی دہلی کی چیف منسٹر اپنے اوپر عائد بدعنوانی کے الزامات کے تناظر میں مستعفی ہو جائیں۔ بھارتی اپوزیشن، بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی نے پیر کے روز اس حوالے سے لوک سبھا میں شدید احتجاج کیا اور اجلاس کی کارروائی نہ ہونے دی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا مطالبہ ہے کہ نئی دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ شیلا ڈکشٹ حکمران کانگریس پارٹی کی ایک اہم رہنما ہیں، جن کو سن 2010 کے دولت مشترکہ کھلیوں میں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ ڈکشٹ اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔
بھارت میں دولت مشترکہ کھیلوں میں بدعنوانی کا تنازعہ کوئی واحد تنازعہ نہیں ہے، جس نے حکمران کانگریس پارٹی اور وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت کو جکڑا ہوا ہے۔ بھارتی حکومت کو ٹیلی کام اسکینڈل اور دیگر شعبوں میں بھی وسیع پیمانے پر کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
پارلیمنٹ کے اجلاس کی کارروائی نہ ہونے کا مطلب حکمران جماعت کے لیے معاشی اصلاحات کے حوالے سے بل منظور کروائے جانے میں رکاوٹ ہے۔ کانگریس اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش کر رہی ہے تاہم حزب اختلاف کی جانب سے پارلیمنٹ کے اجلاسوں کے بار بار کے بائیکاٹ کی وجہ سے اس بل کا منظور ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
ایک جائزے کے مطابق بھارت میں وہ شہری، جو سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کو اپنے عہدے پر فائز رہنا چاہیے، ان کی تعداد سن 2006 کے مقابلے میں اب تک 40 فیصد سے کم ہو کر 22 فیصد ہو چکی ہے۔ اسی جائزے میں ایک دوسرے سوال کے جواب میں 19 فیصد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ سونیا گاندھی کے فرزند راہول گاندھی کو وزیر اعظم بن جانا چاہیے جبکہ 10 فیصد شہریوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم سنگھ کو ہی سربراہ حکومت کے عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک