بہتر زندگی کے خواب کی بھیانک تعبیر
14 اپریل 2017فاطمہ بخشی اپنے دو بچوں اور ماں کے ساتھ مل کر افغانستان سے مہاجرت اختیار کرتے ہوئے یورپ پہنچنے میں کامیاب تو ہو گئی تھیں لیکن وہ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے سے قاصر رہیں۔ وہ اپنے ’ظالم‘ شوہر اور باپ سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے آئرلینڈ جانا چاہتی تھیں، جہاں اُن کے کچھ رشتہ دار پہلے سے آباد ہیں۔
خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کرنے والے افغان مہاجرین گرفتار
’مردوں کی نسبت خواتین جرمن معاشرے میں جلد ضم ہو رہی ہیں‘
انسانوں کے تاجروں کا نشانہ مہاجر خواتین اور معصوم بچے
تاہم سربیا میں کار کے ایک حادثے میں ان کی ماں ہلاک ہو گئیں جبکہ ان کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔ وہ اب بھی اپنے بچوں کی خاطر آئرلینڈ جانے کی خواہاں ہیں۔ فاطمہ کے بچوں کی عمریں پانچ اور نو برس ہیں۔ ان کے مطابق آئرلینڈ میں ان کے ماموں اور دیگر رشتہ دار آباد ہیں۔
فاطمہ کی المناک کہانی ایسی مہاجر خواتین کی داستانوں میں سے ایک ہے، جو انسانوں کے اسمگلروں کا سہارا لے کر خطرناک راستوں سے ہجرت کا ارادہ کرتی ہیں۔ فاطمہ کو اپنے اس سفر کی روداد یاد نہیں ہے لیکن وہ اعتراف کرتی ہیں کہ انہوں نے انہی اسمگلروں کی مدد حاصل کی تھی۔
گزشتہ برس جب بلقان کے راستے بند کر دیے گئے تھے، تب سے ہی وہاں محصور مہاجرین بہتر زندگی کی تلاش میں مختلف غیر قانونی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپی ممالک پہنچنے کا قصد کر رہے ہیں۔
فاطمہ سولہ سال کی تھیں، جب ان کے والد نے ان کی شادی کر دی تھی۔ ان کا شوہر منشیات کا عادی تھا۔ فاطمہ کے مطابق وہ انہیں ظلم وستم کا نشانہ بناتا تھا اور جب وہ پناہ کی غرض سے اپنے والد کے گھر گئیں تو انہیں وہاں رہنے کی اجازت نہ ملی۔ تب فاطمہ کی ماں نے اپنی بیٹی کو تحفظ فراہم کرنے کا عہد کیا۔ یوں انہوں نے آئرلینڈ جانے کا منصوبہ بنایا۔
فاطمہ کے مطابق وہ اپنے دو بچوں اور والدہ کے ساتھ پہلے پاکستان گئیں، جہاں سے وہ ایران، ترکی، یونان اور پھر مقدونیہ پہنچیں۔ انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے شروع ہونے والا یہ سفر انہیں بالآخر گزشتہ برس دسمبر میں سربیا تک لے آیا۔ تاہم انتیس دسمبر کو ہونے والے کار حادثے کے بعد اب معذور فاطمہ جنوبی سربیا کے ایک کیئرنگ ہوم میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے فاطمہ کو ایک باقاعدہ مہاجر ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا ہے۔ یہ ایجنسی اب فاطمہ کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ تاہم یہ بات یقینی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کبھی آئرلینڈ جا سکیں گی۔