تحریکِ لبیک پاکستان کا اسلام آباد دھرنا، نتیجہ کیا نکلے گا؟
13 نومبر 2017تحریکِ لبیک پاکستان نامی مذہبی جماعت کے احتجاجی کارکنوں نے یہ دھرنا اپنا یہ مطالبہ منظور کروانے کے لیے شروع کیا کہ ملکی وزیر قانون زاہد حامد کو ختم نبوت سے متعلق توہین مذہب کے قانون کی وجہ سے پیدا ہونے والے ایک تنازعے کے باعث اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
اس بارے میں ڈوئچے ویلے شعبہ ایشیا کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں اسلام آباد سے شاہ میر بلوچ نے لکھا ہے کہ یہ دھرنا جس تنازعے کے نتیجے میں دیا گیا، وہ اکتوبر میں شروع ہوا تھا۔ ملکی حکومت نے انتخابی قوانین میں ایک ترمیم کرتے ہوئے ساتھ ہی اس حلف کا متن بھی بدل دیا، جو نو منتخب ارکان پارلیمان کو اٹھانا ہوتا ہے اور جس میں کسی بھی رکن کو پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کا بھی اقرار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان: توہین مذہب کا قانون کیسے کیسے استعمال ہو رہا ہے
توہین مذہب کا قانون ختم نہیں کیا جائے گا، پاکستانی وزیر
پاکستانی مسیحی کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت کا حکم
قانونی ترمیم کے بعد سامنے آنے والے ارکان پارلیمان کے لیے حلف کے متن میں ماضی کی نسبت جو ترمیم کی گئی تھی، اس پر مختلف مذہبی جماعتوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔ اس پر حکومت نے اعتراف کیا کہ متن میں یہ تبدیلی دراصل ایک دفتری غلطی تھی، جس کی بعد میں اصلاح بھی کر دی گئی تھی۔
یہاں تک تو بات منطقی اور سمجھ میں آنے والی رہی۔ لیکن چند مذہبی حلقوں کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ جس ترمیم کو ’دفتری غلطی‘ قرار دیا گیا، وہ واقع کوئی دفتری غلطی نہیں تھی، بلکہ ’مغربی دنیا کے ان ایجنٹوں کی دانستہ کوشش کا نتیجہ تھی، جو پاکستانی پارلیمان کے رکن بھی ہیں‘۔
اس تنازعے میں تحریکِ لبیک پاکستان کے جن کارکنوں نے اسلام آباد میں اپنے احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا، ان کا مطالبہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون مستعفی ہو جائیں۔ اس بارے میں دھرنے میں شامل تحریکِ لبیک پاکستان کے حفیظ اللہ علوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکام ان ارکان پارلیمان کے خلاف کارروائی کریں، جو ختم نبوت سے متعلق آئینی شق میں اس غلط ترمیم کے ذمے دار تھے، جو بعد میں ختم کرتے ہوئے اس شق کا پرانا متن بحال کر دیا گیا۔‘‘
الجزائر: جماعت احمدیہ کے سربراہ کو ’توہین اسلام‘ کے جرم میں سزا
توہین مذہب کے قوانین، دنیا میں پھیلتے ہوئے
پاکستان: نوجوان مسیحی ’توہین مذہب‘ کے الزام میں گرفتار
اسلام آباد میں کئی دنوں سے جاری اس احتجاجی دھرنے کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے درمیان روزانہ سفر کرنے والے لاکھوں افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور حکام نے احتیاطی طور پر صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے کئی ایسی دوسری سڑکیں بھی بند کر دی ہیں، جن کی بندش عوام کے لیے اضافی مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہے۔
اس بارے میں پاکستانی دارالحکومت کے ایک رہائشی عثمان اعظم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ لیکن یہ مظاہرین شہر کو جانے والے راستوں کی ایسی ناکہ بندی تو نہ کریں کہ لاکھوں عام شہری شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں۔‘‘
حفیظ اللہ علوی کے مطابق یہ دھرنا تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے۔ وفاقی حکومت اور اسلام آباد کی انتظامیہ ابھی تک اس معاملے کو کسی نہ کسی انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی بھی عملی مداخلت کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ دوسری طرف عام شہریوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ اب تک نہ تو ختم ہوئی ہیں اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ اس احتجاج کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی جائے، پاکستانی عدالت
’سوشل میڈیا پر توہین مذہب‘، سزائے موت سنا دی گئی
پاکستان میں آن لائن تنقید: ’حکومتی کریک ڈاؤن‘ کے خلاف تنبیہ
اس بارے میں پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما اور پارلیمانی ایوان بالا میں اس سیاسی جماعت کے حزب کے سربراہ راجہ محمد ظفرالحق نے امید ظاہر کی کہ یہ معاملہ جلد ختم ہو جائے گا۔ سینیٹر راجہ ظفرالحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم انتخابی اصلاحات کے بل میں ہونے والی غلطیوں کے ازالے پر کام کر رہے ہیں اور ملکی کابینہ نے ان درستگیوں کی منظوری بھی دے دی ہے، جن کا یہ مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘
راجہ ظفرالحق نے تاہم کہا کہ وزیر قانون یا دیگر ارکان پارلیمان کے مستعفی ہو جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’ہم اس پوری پارلیمان کو سزا نہیں دے سکتے، جس نے اس ترمیمی بل پر کام کیا تھا۔ اس وقت یہ بل قومی اسمبلی کے سیکرٹیریٹ میں ہے، جہاں منتخب ارکان جلد ہی اس کی منظوری دے دیں گے۔‘‘