ترک حکمت عملی: فوجی مہم کی حمایت نہ کرنے والوں کی ’موبنگ‘
5 فروری 2018ترکی میں حکام بہت سے ایسے شہریوں کو حراست میں لے چکے ہیں، جو شامی علاقے عفرین میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوج کی مسلح کارروائیوں پر سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کر رہے تھے۔ لیکن اب ایسے افراد بھی حکومت نواز حلقوں کے نشانے پر ہیں، جنہوں نے اب تک اس موضوع پر سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہنے سے احتراز کیا ہے۔
عفرین آپریشن، ہفتہ ترک فوج کے لیے خونریز ترین دن
عراق میں ترک فوجی کارروائی، انچاس کرد جنگجو ہلاک
گزشتہ ہفتے انقرہ حکومت کے قریب سمجھے جانے والے ایک ترک نشریاتی ادارے کے اینکرز نے ٹی وی کیمروں کے سامنے سوشل میڈیا پر کئی ایسی سرکردہ شخصیات کے اکاؤنٹس کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا، جنہوں نے شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کے حوالے سے کوئی پوسٹ شائع نہیں کی تھی۔ ان سرکردہ ترک شخصیات کو انہی ٹی وی اینکرز نے ایسی ’مشہور ہستیاں‘ قرار دیا، جو ’عفرین میں فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کر رہی‘ تھیں۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی تھی۔
ڈوئچے ویلے کے لیے اس موضوع پر اپنی ایک تفصیلی تحریر میں بیکلان کُولاکسی زولو نے لکھا ہے کہ ترکی میں اب ایسی بہت سی شخصیات کو حکومتی اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے، جو حکمرانوں سے مختلف سوچ کی حامل ہیں اور شامی کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوج کی مہم پر یا تو تنقید کر رہی ہیں یا پھر اس کی حمایت نہیں کر رہیں۔
امریکا کرد جنگجوؤں کو مزید اسلحہ نہیں دے گا، ترک نیوز ادارے
بیکلان کُولاکسی زولو کے مطابق ترکی میں ایسی شخصیات کا المیہ اور شاید واحد قصور یہ ہے کہ وہ حکومت اور فوج کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہیں اور انہیں اس وجہ سے حکام اور حکومت نواز سیاسی اور میڈیا عناصر کی طرف سے ’موبنگ‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ ایک جمہوری معاشرے میں محض مختلف سوچ کی حامل ہیں۔
کُولاکسی زولو کے مطابق ترکی میں اس وقت ایسے سرگرم سماجی کارکن بھی دباؤ کا شکار ہیں، جو عام طور پر سوشل میڈیا پر سیاسی موضوعات پر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مشہور ترک اداکارہ گوئپسے اوزائے کی بھی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عام طور پر ثقافتی موضوعات پر ٹویٹس کرتی ہیں اور شمالی شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوجی آپریشن سے متعلق فیس بک یا ٹوئٹر پر کچھ بھی کہنے سے کتراتی ہیں۔
ترکی شام میں مسلح آپریشن محدود رکھے، ٹرمپ
ترکی کا عفرین میں ڈھائی سو سے زائد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ
ابھی حال ہی میں الاسکا میں آنے والے زلزلے کے بعد جب اوزائے نے اس زلزلے کے متاثرین کے لیے اظہار ہمدردی کیا، تو سوشل میڈیا پر فوراﹰ ہی ان پر ذاتی حملے شروع کر دیے گئے۔ ان کے بارے میں لکھا گیا، ’’عفرین کے بارے میں کچھ لکھنے کے بجائے، یہ الاسکا کے بارے میں ٹویٹس کر رہی ہیں۔‘‘
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گوئپسے اوزائے کو الاسکا میں زلزلے کے بارے میں اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑ گئی اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت ترکی اور ترک عوام کافی حساس دور سے گزر رہے ہیں اور وہ الاسکا میں زلزلے سے متعلق اپنی ٹویٹ پر عوامی ردعمل کو سمجھ سکتی ہیں۔
عفرین کارروائی کے مخالف درجنوں ترک افراد گرفتار
نیا موڑ، ترک افواج شام میں داخل ہو ہی گئیں
بیکلان کُولاکسی زولو کے مطابق انتہا تو یہ ہے کہ ایک ترک ریڈیو میں ایک پروگرام کے میزبان نے تو ابھی حال ہی میں یہاں تک کہہ دیا، ’’جو کوئی بھی ترک فوجی آپریشن کے خلاف کچھ کہے، چاہے وہ کوئی صحافی ہو یا کوئی رکن پارلیمان، اسے گولی مار دینا چاہیے۔‘‘
اس طرح کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ترک معاشرے میں اس وقت کس طرح کی فضا پائی جاتی ہے اور عفرین میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوجی آپریشن رائے عامہ میں کس حد تک تقسیم کی وجہ بن چکا ہے۔