تیس ہزار سعودی فوجی عراقی سرحد پر تعینات
3 جولائی 2014دبئی سے آمدہ رپورٹوں میں خبر ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ سرحد کے قریب عراقی علاقے سے بغداد کے مسلح دستوں کی واپسی کے بعد ریاض حکومت عراق کے ساتھ اپنی اس سرحد کو بالکل غیر محفوظ تصور کرنے لگی تھی اور اسی لیے اب سعودی مسلح افواج کے تیس ہزار اہلکاروں کو اس سرحد پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
سعودی عرب خلیج کے علاقے کی رقبے کے لحاظ سے بہت بڑی ریاست ہے اور دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی، جس کی عراق کے ساتھ مشترکہ سرحد 500 میل یا 800 کلو میٹر طویل ہے۔ عراق کو اس وقت شدید نوعیت کے داخلی سکیورٹی بحران کا سامنا ہے اور وہاں گزشتہ مہینے سے اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا ISIS اور کئی دیگر عسکریت پسند سنی مسلح گروپوں کے ارکان متعدد شہروں اور قصبوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
اس بارے میں نشریاتی ادارے العربیہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی SPA نے بھی آج بتایا کہ سعودی دستوں کی عراق کے ساتھ سرحد پر تعیناتی کے پس منظر میں شاہ عبداللہ نے یہ حکم بھی دے دیا ہے کہ ملکی سکیورٹی فورسز ریاست کو ہر قسم کے ممکنہ دہشت گردانہ خطرات سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کو یقینی بنائیں۔
سعودی ملکیت میں دبئی سے کام کرنے والے ٹیلی وژن ادارے العربیہ نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ سعودی فوجی دستے عراق کے ساتھ سرحدی علاقوں میں اس وقت جگہ جگہ تعینات کر دیے گئے تھے جب بغداد حکومت کے دستوں نے مشترکہ سرحدی علاقے میں اپنی پوزیشنیں خالی کرنا شروع کر دی تھیں اور عراق کی سعودی عرب اور شام کے ساتھ سرحدوں کو غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا۔
العربیہ کے پاس ایسی ویڈیو فوٹیج بھی موجود ہے جس میں سرحدی علاقوں سے انخلاء کے بعد عراق کے قریب ڈھائی ہزار فوجیوں کو شہر کربلا سے مشرق کی طرف ایک بڑے صحرائی علاقے میں پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
العربیہ نے یہ فوٹیج نشر بھی کی ہے، جس میں ایک عراقی فوجی افسر کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجیوں کو بغیر کسی وجہ کے اپنی پوزیشنیں خالی کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
کل بدھ کے روز امریکی صدر باراک اوباما نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کے ساتھ خاص طور پر ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی، جس میں عراق کی صورت حال اور وہاں سنی عسکریت پسندوں کی پیش قدمی سے پیدا ہونے والے حالات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔