پاکستان: خواتین کا ورچوئل ریئیلٹی بیسڈ سٹارٹ اپ 'آربٹ ایڈُ‘
11 ستمبر 2022دنیا بھر میں ورچوئل اور آگمینٹڈ ریئیلٹی ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ طب، تعلیم، بزنس مینجمینٹ، غرض یہ کہ کوئی فیلڈ ایسی نہیں رہی جس میں اے آر اور وی آر کا استعمال نہ کیا جا رہا ہو۔ پاکستان میں حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث فی الحال سرکاری سطح پر سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال محدود ہے۔ لیکن پرائیویٹ سیکٹر مسلسل اس کی ترویج کے لیے کوشاں ہے۔
انہی میں ابھرتا ہوا ایک سٹارٹ اپ 'آربٹ ایڈ‘ بھی ہے، جو ورچوئل اور آگمینٹڈ ریئیلٹی ٹیکنالوجی کی مدد سے خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسگی سے بچانے اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے ٹریننگ فراہم کرتا ہے۔ آربٹ ایڈ اسلام آباد کی رہائشی نویرا وحید اور وجیہہ حبیب کے ذہن کی اختراع ہے۔ اس سٹارٹ اپ نے سیلیکون ویلی سے حال ہی میں ریکارڈ انویسٹمنٹ بھی حاصل کی ہے۔
ورچوئل اور آگمینٹڈ ریئیلٹی کے ذریعے خواتین کی تربیت کا خیال کیسے آیا؟
آربٹ ایڈ کی شریک بانی نویرا وحید نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ورچوئل اور آگمینٹڈ ریئیلٹی ٹیکنالوجی پر سن 2015 سے کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں بزنس فیلڈ میں بہت سے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دور میں جب ان کی سیل بہت زیادہ متاثر ہوئی تو انہوں نے نوٹ کیا کہ نئی خواتین ورکرز صحیح کام نہیں کر پا رہیں، جس کی وجہ یقینا ورک پلیس سے متعلق تربیت کی کمی تھی۔
پھر انہیں خیال آیا کہ کیوں نا خواتین ورکرز کو ورچوئل ریئیلٹی کے ذریعے کلائنٹس کو ڈیل کرنے اور ان دیگر مسائل سے متعلق تربیت دی جائے، جو ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہے تھے؟ اس لرننگ پروگرام کے بعد ان کی بزنس سیل میں 189 فیصد تک اضافہ ہوا۔
آربٹ ایڈ کے تربیتی پروگرام کی خصوصیت کیا ہے؟
نویرا وحید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کام کی جگہ پر خواتین کو جنسی ہراسگی اور صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے باعث سے بہت سی ایسی با صلاحیت خواتین کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، جنہیں فیملی کی طرف سے سپورٹ نہیں ملتی، ''مسلسل خوف کا شکار رہنے سے بھی خواتین کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے‘‘۔ نویرا کے مطابق آربٹ ایڈ کا ورچوئل اور آگمینٹڈ ریئیلٹی لرننگ پروگرام عمومی تربیتی پروگراموں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ ان میں پریکٹیکل ورک نہیں ہوتا۔
نویرا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے خواتین کو حق کے لیے او زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے، لڑنے اور کام کی جگہ سے متعلق دیگر مسائل سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ ان کے اندر خوف کو کم کیا جا سکے اور اعتماد بڑھایا جائے۔
آربٹ ایڈ کی ورچوئل ریئیلٹی ٹیکنالوجی پر مشتمل تدریسی کتابیں
نویرا وحید نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی تعلیمی اداروں خصوصا اسکول کی سطح پر سائنس جس غیر معیاری انداز میں پڑھائی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ''طبیعیات، کیمیا، حیاتیات جیسے مضامین میں بھی پریکٹیکل ورک کے بغیر صرف قوانین کا رٹا لگوایا جا رہا ہے، جو بچوں کو سائنسی مضامین سے بیزار بنا رہا ہے۔‘‘
آربٹ ایڈ کی ورچوئل ریئیلٹی ٹیکسٹ بکس پڑھائی کو رٹا سے نکال کر تفریح کی طرف لے جانے کا ایک منصوبہ ہیں یعنی بچوں کو کھیل کھیل میں سائنسی قوانین سمجھائے جائیں۔ نویرا کے مطابق اسے سادہ مثال کے ساتھ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ زمین کا اپنے محور کی جانب جھکاؤ 23 ڈگری ہے، جو کرۂ ارض پر سال میں چار موسموں کی تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔
اسےورچوئل رئیلٹی گیم کے ذریعے بچوں کو ناصرف با آسانی سمجھایا جا سکتا ہے بلکہ روز مرہ زندگی میں اس کا مشاہدہ کر کے وہ اس سے نئی چیزیں بھی سیکھیں گے۔ اسی طرح روز مرہ کی مثالوں پر مشتمل یہ جدید نصاب کائی نیٹک انرجی ( حرکی توانائی)، مقناطیسیت، برقی مقناطیسیت، میٹا بولزم وغیرہ کے قوانین بچوں کو سمجھا سکتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کو نئے شعبوں کی طرف کس طرح راغب کیا جا سکتا ہے؟
نویرا وحید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستانی خواتین ٹیلنٹ میں کسی سے کم نہیں ہیں مگر ایک بڑا مسئلہ یہ عمومی معاشرتی سوچ ہے کہ خواتین ہر فیلڈ میں کام نہیں کر سکتیں خصوصا کسی نئی فیلڈ میں جانے والی خواتین کو ابتدا میں بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق خواتین کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو خود پہچان کر اپنے لیے کسی شعبے کا انتخاب کریں۔
اس کے ساتھ ہی خواتین میں مالی خود انحصاری کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے والد، شوہر یا بھائی پر انحصار کرنے کے بجائے خود کوئی ملازمت یا کاروبار کر کے اپنی ضرورتوں کو پورا کریں، ''اس سے ایک تو زندگی میں مقصدیت آئے گی دوسرے بہت سے گھریلو اور معاشرتی مسائل بھی حل ہوں گے۔‘‘
سیلیکون ویلی انویسٹمنٹ کتنی سود مند ثابت ہوئی؟
نویرا وحید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''آربٹ ایڈ کو حال ہی میں سیلیکون ویلی کے انویسٹرز کی طرف سے 80 ہزار ڈالر ملے ہیں تاکہ ہم پاکستان میں اپنے کام کو دوسرے شہروں تک پھیلا سکیں۔ فی الوقت ہمارا فوکس نئی پراڈکٹ کی تیاری اور مارکیٹنگ سے متعلق شعبوں پر ہے، جس کے لیے یہ رقم بہت سود مند ثابت ہو گی۔‘‘