1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن مخلوط حکومت، حتمی فیصلہ SPD کے عام ارکان کا

ناستاسیا شٹوئیڈل / امجد علی27 نومبر 2013

جرمنی میں اس سال 22 ستمبر کو منعقدہ انتخابات میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں CDU، CSU اور SPD کے مابین گزشتہ شب اٹھارہ گھنٹے کے طویل مذاکرات کے بعد ایک بڑی مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے پر اتفاقِ رائے ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/1APRz
تصویر: picture-alliance/dpa

اس اتفاقِ رائے کے بعد ایس پی ڈی یعنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس معاہدے کو منظوری کے لیے اپنے چار لاکھ 75 ہزار ارکان کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح اس معاہدے کے سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ دسمبر کے وسط میں ہی سامنے آ سکے گا۔

جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وفاقی سطح پر اتفاقِ رائے سے طے پانے والے مخلوط حکومت کے معاہدے کو حتمی فیصلے کے لیے اس جماعت کے چار لاکھ 75 ہزار ارکان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ایس پی ڈی کی رکنیت کا کارڈ رکھنے والے یہ ارکان، جن کی اکثریت غالباً پھر سے میرکل کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتی ہے، آنے والے ہفتوں میں ڈاک کے ذریعے اپنی رائے دیں گے۔ اس رائے شماری کے نتائج کا اعلان 14 دسمبر کو کیا جائے گا۔

44 برسوں سے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ نوربرٹ کرِیش
44 برسوں سے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ نوربرٹ کرِیشتصویر: Gerhard Gleim

اس رائے شماری میں 91 سالہ جرمن خاتون رُوتھ ہیئرنگ بھی اپنا ووٹ استعمال کریں گی، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل صرف اور صرف اسی لیے ایس پی ڈی کی رکنیت اختیار کی تاکہ وہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے پر ہونے والی رائے شماری میں حصہ لے سکیں۔ جرمنی بھر میں شہ سرخیوں کا موضوع بننے والی اس خاتون نے کہا تھا کہ اُنہوں نے یہ قدم جرمنی میں زیادہ منصفانہ حالات پیدا کرنے کے لیے اٹھایا۔ گویا بائیس ستمبر کے عام انتخابات میں خراب نتائج حاصل کرنے کے باوجود یہ جماعت اپنی اس شناخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی کہ یہ جماعت انصاف کے لیے لڑتی ہے۔ اس جماعت کے زیادہ تر ارکان کو یہی خدشہ ہے کہ میرکل کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کی صورت میں یہ جماعت اپنی اس مخصوص پہچان سے محروم بھی ہو سکتی ہے۔

جرمنی بھر میں یونین جماعتوں اور ایس پی ڈی کے درمیان مخلوط حکومت کی تشکیل کے خلاف سرگرم ارکان میں نوربرٹ کرِیش بھی شامل ہیں، جو گزشتہ چوالیس برسوں سے اس جماعت کے رکن ہیں اور ایس پی ڈی کی ایک علاقائی شاخ کے نائب چیئرمین بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’ستر اَسی فیصد ارکان ایک بڑی مخلوط حکومت کے خلا ف ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ اس طرح ایس پی ڈی اپنی سوشل ڈیموکریٹک سیاست کو مؤثر طور پر آگے نہیں بڑھا سکے گی۔‘‘

ایسے میں بنیادی ارکان سے رائے لینے کی وہ تجویز، جو اس سال موسمِ گرما میں پارٹی قائد زیگمار گابریل نے پیش کی تھی، نہ صرف ایس پی ڈی بلکہ جرمنی کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ ایک خطرناک مہم جوئی بنتی جا رہی ہے۔ اگر صرف چالیس فیصد ارکان بھی اس رائے شماری میں حصہ لیں تو ایک لاکھ ارکان کی طرف سے بھی مخلوط حکومت کے معاہدے کی مخالفت وفاقی جمہوریہ جرمنی کو ایک طرح کے ’ریاستی بحران‘ میں دھکیل سکتی ہے۔

جرمن صوبے ہیسے کے شہر فوگلزبیرگ میں ایس پی ڈی کے چیئرمین سوَین باستیان
جرمن صوبے ہیسے کے شہر فوگلزبیرگ میں ایس پی ڈی کے چیئرمین سوَین باستیانتصویر: SPD Landesverband Hessen

اس رائے شماری کی صورت میں پارٹی قائد زیگمار گابریل نے ایک جوا کھیلا ہے اور اگر رائے شماری ناکام ہو گئی تو گابریل بھی ناکام ہو جائیں گے۔ ارکان کی طرف سے مخالفت کا نتیجہ نئے انتخابات کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے اور نئے انتخابات کے نتیجے میں ایس پی ڈی کی پوزیشن مزید کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔

جرمن صوبے ہیسے کے شہر فوگلزبیرگ میں ایس پی ڈی کے چیئرمین سوَین باستیان کہتے ہیں کہ اُنہوں نے جان بوجھ کر اپنے علاقے کے ارکان کو اس معاہدے کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ دینے کی تجویز دینے سے گریز کیا ہے:’’بنیادی ارکان کی رائے شماری کو سنجیدگی سے لیا جائے تو اُس کا یہی مطلب ہے کہ ہر رکن خود فیصلہ کرے۔‘‘

سوَین باستیان کے خیال میں پارٹی کے ہر رکن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے کا تفصیل سے مطالعہ کرے، اُسے اچھی طرح سے پرکھے اور پھر کوئی فیصلہ کرے۔