’جس کے پاس پیسے ہیں، اسے پناہ دی جائے گی‘
30 مارچ 2016ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونانی جزیروں پر پہنچنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی
یونان میں پھنسے پاکستانی وطن واپسی کے لیے بیقرار
دوسری جانب معروف جرمن جریدے ’ڈئیر اشپیگل‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ یونانی حکام ایسے تارکین وطن کو اپنے ہاں مستقل رہائش دینے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جن کے پاس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے وافر رقم موجود ہے۔
اشپیگل کے مطابق معاشی امور کے ماہر اور یونانی نائب وزیر خارجہ دیمیتریس مارداس کی رائے میں اس وقت یونان میں پچاس ہزار سے زائد ایسے پناہ گزین موجود ہیں جن کے پاس یونان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کافی پیسے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق آج تیس مارچ بروز بدھ ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھا گیا۔
یونانی حکام کے مطابق منگل کی صبح سے لے کر بدھ کی صبح تک محض چوبیس گھنٹوں کے دوران 766 نئے تارکین وطن یونانی جزیرے لیسبوس پہنچنے۔ اس کے مقابلے میں پیر اٹھائیس مارچ کے روز صرف 192 افراد بحیرہ ایجیئن کا خطرناک راستہ عبور کر کے پناہ کی تلاش میں یونان پہنچے تھے۔
یورپی کمیشن نے گزشتہ روز ہی بتایا تھا کہ ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد گزشتہ ہفتے کے دوران روزانہ کی بنیاد پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کم ہو کر ایک ہزار یومیہ تک رہ گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں حالیہ مہینوں کے دوران روزانہ اوسطاﹰ دو ہزار افراد ترکی سے یونان پہنچ رہے تھے۔
ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا نفاذ بیس مارچ سے شروع ہو چکا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر یونان آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ تاہم انتظامی مسائل کی وجہ سے ترکی واپس بھیجے جانے کا عمل فوری طور پر شروع نہیں ہو سکا تھا لیکن یونانی حکام کے مطابق چار اپریل سے واپسی کا عمل شروع ہو جائے گا۔