جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد کرفیو نافذ
10 جون 2022بھارت کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر میں جمعرات کو بھدرواہ اور کشتواڑ کے بعد جمعے کو چناب ویلی میں بھی کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ تصادم کی ابتدا دو فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ پرتشدد جھڑپوں کی وجہ سے ہوئی تھی تاہم کشیدگی اتنی زیادہ پھیل گئی کہ متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ کے لیے فوج کو طلب کرنا پڑا۔
حکام نے کرفیو کے نفاذ کے ساتھ ہی متعدد حساس علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کو بھی معطل کر دیا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔
معاملہ کیا ہے؟
گزشتہ روز جموں کے متعدد علاقوں میں مسلم تنظیموں نے، حکمراں بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے اہانت رسول سے متعلق مبینہ بیانات کے خلاف، احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔اطلاعات کے مطابق اسی کے رد عمل میں، سخت گیر ہندو نظریات کے حامل گروپوں نے سوشل میڈیا پر بعض توہین آمیز ریمارکس پھر سے شیئر کیں جس کے بعد دو فرقوں کے درمیان تصادم شروع ہو گیا۔
جموں کے ایک مقامی صحافی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ پولیس نے اس سلسلے میں بعض افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ ''پولیس نے سوشل میڈیا پر موجود ایسے توہین آمیز مواد اور متنازعہ کارٹونوں کو ڈیلیٹ کرنے کا حکم دیا ہے اور کارروائی بھی جاری ہے۔''
اطلاعات کے مطابق احتجاجی مظاہرے کے دوران پہلے ایک مقامی مسلم عالم نے مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کی تھی اور پھر اس کے جواب میں ہندوؤں کے ایک گروپ نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض پوسٹ اپ لوڈ کر دیں۔
پولیس حکام نے فریقین کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اگر کسی بھی گروپ نے امن و قانون کی صورت حال بگاڑنے کی کوشش کی تو، اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
سیاسی جماعتوں کا رد عمل
سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے بھدرواہ کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''میں دونوں فرقوں کے بزرگوں اور سربراہان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ روایتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ساتھ بیٹھیں۔ بھدرواہ کا خوبصورت قصبہ اسی کے لیے معروف ہے۔''
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''مجھے امید ہے کہ ٹھنڈے دماغ کامیاب ہوں گے۔ بھدرواہ اور اس کے آس پاس پھیلی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی جموں و کشمیر کے مسائل میں ایک اور اضافہ ہے جو پہلے ہی سے کافی مسائل سے دو چار ہے۔ میں ہر کسی سے پرسکون رہنے کی اپیل کرتا ہوں اور اپنی پارٹی کے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ وہ جلد از جلد حالات کو معمول پر لانے میں مدد کریں۔ ''
تقریبا دو ہفتے قبل بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کی ایک قومی ترجمان نوپور شرما نے ٹی وی پر ایک بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے حوالے سے اہانت آمیز باتیں کہی تھیں، جس سے مسلم طبقہ کافی ناراض ہے اور اس کے خلاف بھارت کے دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوچکے ہیں۔
چند روز قبل اس پر جب کئی مسلم ممالک نے سخت احتجاج کیا اور اپنے ہاں بھارتی سفیروں کو بھی وضاحت کے لیے طلب کیا، تو بی جے پی نے تقریباًدس روز گزر جانے کے بعد نوپور شرما کی پارٹی رکنیت معطل کر دی تھی جبکہ ایک دوسرے رہنما نوین کمار جندل کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ تاہم بہت سی مسلم تنظیمیں بی جے پی کے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اس پورے واقعے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔