جنرل اسمبلی کا اجلاس، نگاہیں ٹرمپ کے خطاب پر جمی ہوئیں
15 ستمبر 2017اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے انیس ستمبر سے شروع ہونے والے سالانہ اجلاس میں 129 مختلف ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت متنازعہ مگر اہم عالمی امور پر اظہارِ خیال کریں گے۔ سفارت کاروں نے اس اجلاس میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اس کے علاوہ یمنی تنازعہ، شام میں قیام امن کی صورت حال، روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری میانمار حکومت کا کریک ڈاؤن، افغانستان اور جنوبی سوڈان میں پیدا شدہ مسلح تنازعات بھی زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔
راکھین میں صورتحال کو قابو میں لایا جائے، عالمی سلامتی کونسل
روہنگیا بحران: ’نسل کشی کی کتابی مثال‘ ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا غزہ کا پہلا دورہ
اقوام متحدہ کے پرچم تلے جنسی زیادتیاں، خصوصی اہلکار تعینات
انیس ستمبر کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے خطاب کو خاص توجہ حاصل رہے گی کیونکہ اُن کی ’امریکا سب پہلے‘ کی پالیسی پر دوستوں اور مخالفین کی بیان بازی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ امریکا کی ہال یونیورسٹی کے تجزیہ کار مارٹن ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر عوامی رائے کے تناظر میں ٹرمپ کے خطاب کو بظاہر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونے کا امکان بہت کم ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ایک روز قبل پیر اٹھارہ ستمبر کو امریکی صدر ٹرمپ ایک سو سے زائد غیر ملمکی لیڈران کے اعزاز میں استقبالیہ دیں گے اور متعدد سے مصافحہ بھی کریں گے۔ اکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کے پہلے دن فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنے ملک کی پہلی مرتبہ نمائندگی کریں گے۔ امکاناً وہ مثبت عالمی تعاون کو فروغ دے کر تنازعات کو حل کرنے کی تجویز دے سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے نو ماہ قبل عالمی ادارے کے سربراہ کا منصب سنبھالا تھا لہذا اُن کے دور کا بھی یہ پہلا اجلاس ہے۔
اسی اجلاس میں شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یونگ ہو اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے جوہری ہتھیار سازی اور بیلسٹک میزائل تجربات کی ملکی پالیسی کو دفاع کرنے کی کوشش کریں گے۔ شمالی کوریائی وزیر خارجہ کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ ملاقات کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
شمالی کوریا کو جاپان، جنوبی کوریا اور امریکا کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا قوی امکان ہے۔ روس اور چین نے شمالی کوریا پر مزید سخت پابندیوں پر اپنے اپنے تحفظات ظاہر کرنے کے بعد اب پابندیوں کی قرارداد کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔