دائیں بازو کا انتہا پسند یہودی گروہ اسرائیل کے لیے چیلنج
16 دسمبر 2011اس گروہ کی جانب سے یہ کارروائی مغربی اُردن میں اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک غیر قانونی یہودی بستی کی دو عمارات منہدم کیے جانے کے بعد کی گئی تھی۔ راملہ کے قریب بُرکہ نامی گاؤں میں آتِش زنی کی واردات کا شکار ہونے والی مسجد کی دیوار پر انتہا پسندوں کی طرف سے عبرانی زبان میں نعرے تحریر کیے گئے تھے۔ ایسے ہی نعرے یروشلم کی اُس خالی مسجد کی دیواروں پر بھی لکھے ہوئے تھے، جسے چند روز قبل آگ لگا دی گئی تھی۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران مغربی اُردن کے ساتھ ساتھ شمالی اسرائیل میں بھی مساجد کو اسی طرح کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور وہاں دیواروں پر عربوں اور مذہبِ اسلام کے خلاف توہین آمیز نعرے لکھے گئے۔
چند روز پہلے درجنوں انتہا پسند یہودی آباد کاروں نے مغربی اُردن میں اسرائیلی فوج کی ایک چوکی پر دھاوا بول دیا۔ حملہ آوروں نے ایک لیفٹیننٹ کرنل کی جیپ پر اینٹیں برسائیں، جس کے نتیجے میں اُسے سَر پر زخم آئے۔ اس حملے کی وجہ یہ افواہیں بنیں کہ حکومت غیر قانونی طور پر تعمیر کی جانے والی چند ایک یہودی بستیاں خالی کروانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔
لمبی لمبی داڑھیاں، سروں پر روایتی ٹوپیاں اور بالوں کی گندھی ہوئی مینڈھیاں اس گروہ کی پہچان ہیں۔ اسرائیلی معاشرے میں اِنہیں مذہبی قوم پرست کہا جاتا ہے اور اِن میں سے زیادہ تر آباد کار ہیں۔ اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ پورا غرب اردن وہ علاقہ ہے، جس کا خدا نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا اور یہ کہ کسی دوسری قوم کو یہاں حکومت کرنے کا حق نہیں ہے۔
اسرائیلی قوانین اور ریاستی اداروں کو چیلنج کرنے والا یہ گروہ آج کل وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ نیتن یاہو نے اس گروہ کے ارکان کو ’فسادی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ اس گروہ کی جانب سے تشدد کے تازہ اقدامات کی اسرائیلی معاشرے کے تمام طبقے، حتیٰ کہ آباد کاروں کے مرکزی رہنما بھی مذمت کر رہے ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ایک جائزے کے مطابق یہ جانچنا بہت مشکل ہے کہ غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں آباد نصف ملین اسرائیلیوں میں سے کتنے فوج اور فلسطینیوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں کے لیے تیار ہیں یا اِن کی حمایت کرتے ہیں۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: حماد کیانی