دارالحکومت دمشق سمیت شام بھر میں مظاہروں میں شدت
16 اپریل 2011بشار الاسد کے گیارہ سالہ دور صدارت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں مظاہرین نے نماز جمعہ کے بعد دمشق سمیت ملک کے متعدد شہروں میں سڑکوں پر گشت کیا۔ یہ مظاہرین ’خدا، شام اور آزادی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دمشق کے مختلف نواحی علاقوں سے شہر کے مرکز میں جمع ہونے کی کوشش کرنے والوں اور فورسز کے درمیان جھڑپوں کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے۔
سکیورٹی فورسز نے متعدد مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے متعدد مظاہرین کو زدوکوب بھی کیا۔ ایک شہری کے مطابق، ’پولیس والے مظاہرین کی طرف بڑھتے ہوئے زور زور سے چیخ رہے تھے، دراندازو! تمہیں آزادی چاہیے؟ ہم تمہیں آزادی دیتے ہیں۔‘
مضافاتی علاقے حرستا سے دمشق کے مرکز پہنچنے کے لیے کوشاں ایک عوامی ریلی کے ہمراہ موجود ایک شہری کا کہنا تھا کہ ہزاروں افراد ملک سے بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ’’مظاہرین نعرے بازی کر رہے تھے کہ عوام بشار الاسد اور ان کی حکومت کو اٹھا کر باہر پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر ان مظاہرین کو جہاں کہیں بشار الاسد کی تصویر کا حامل کوئی پوسٹر نظر آیا، اسے پھاڑ دیا گیا۔‘‘
ماہرین کے مطابق بشارالاسد حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے باعث ابتدا میں صرف جنوبی شہر درعا میں شروع ہونے والے یہ مظاہرے اب ملک کے تقریبا تمام اہم شہروں میں پھیل چکے ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے سیاسی اور جمہوری اصلاحات کے اعلانات اور وعدوں کے باوجود ان مظاہروں کی شدت میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ شام کے جنوبی شہر درعا میں حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب ایک ٹین ایجر کو اسکول کی دیواروں پر جمہوریت کے حق میں اور حکومت کے خلاف نعرے تحریر کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عوام کی طرف سے ابتدا میں اس طالب علم کی رہائی کے مطالبات کیے جا رہے تھے، تاہم مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور کارروائیوں کے باعث یہ مظاہرے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلتے چلے گئے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : افسر اعوان