1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی سے متعلق اقوام متحدہ کی فہرست، 139 نام پاکستان سے

عبدالستار، اسلام آباد
4 اپریل 2018

سیاسی، اقتصادی اور سفارتی مشکلات میں گھرے پاکستان کے مسائل میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی جو فہرست منگل کو اپ ڈیٹ کی، اس میں 139 نام پاکستان سے متعلق ہیں۔

https://p.dw.com/p/2vUfr
حافظ سعید، جنہیں عالمی سلامتی کونسل کی اس فہرست میں دہشت گرد قرار دیا گیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

اس فہرست پر پاکستان کے سیاسی مبصرین، معاشی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔ فہرست میں کالعدم لشکر طیبہ اور کالعدم جماعت الدعوہ کے رہنما حافظ سعید، اس تنظیم کے ترجمان یحییٰ مجاہد اور اس جہادی گروپ کے ایک اور رہنما ذکی الرحمن لکھوی کے نام بھی شامل ہیں۔

’امریکا نے کبھی پاکستان کی جمہوری حکومتوں کے ساتھ نہیں دیا‘

دہشت گردی کا انسداد اور پاک افغان سرحدی باڑ
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی اس فہرست کی وجہ سے پاکستان کے لیے بہت سے مالیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’فوری طور پر تو حکومت کو یہ کرنا پڑے گا کہ جن افراد کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں، پاکستان کو ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا پڑے گی۔ اگر ہماری عدالتیں ان افراد، تنطیموں یا گروپوں  کو چھوڑ دیتی ہیں، تو ہمیں وہ وجوہات اور شواہد عالمی ادارے کو پیش کرنا پڑیں گے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ایسے کسی موقف کو کس حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ اگر حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی اور وہ آزادنہ ہی گھومتے رہتے ہیں، تو پھر عالمی سلامتی کونسل پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتی ہے، جن سے ہماری اقتصادی مشکلات شدید ہو سکتی ہیں۔‘‘

USA Sicherheitsrat der Vereinten Nationen Friedensverhandlungen in Kolumbien
عالمی سلامتی کونسل نے اس فہرست کو منگل تین اپریل کو اپ ڈیٹ کیاتصویر: picture-alliance/dpa/M. Rajmil

مالیاتی امور کے ماہر فیصل بلوچ کے خیال میں اس سے پاکستان کے لیے مصیبتوں کا ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا، ’’بعض اوقات صرف تاثر ہی حقیقت سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ اس فہرست کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کا یہ تاثر جائے گا کہ ہم دہشت گردوں کی مدد کرنے والے ممالک میں شامل ہیں اور بین الاقوامی برادری ہمارے خلاف سخت اقدامات کر سکتی ہے۔‘‘

رائے ونڈ دھماکا، کس کو کیا پیغام دے گیا؟

خیبرپختونخوا، حکمرانی کے لیے ایک مشکل صوبہ

فضل الرحمان خلیل کی آزادانہ نقل و حرکت اور امریکی خدشات

فیصل بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس تاثر کی وجہ سے لوگ ہم سے ہماری مصنوعات نہیں خریدیں گے۔ ہماری درآمدات بھی متاثر ہوں گی اور خصوصاﹰ ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات خریدنے میں ہمیں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ہمیں قرض دینے سے بھی کترائیں گے کیونکہ اقوام متحدہ میں کئی کام عالمی سپر طاقت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ واشنگٹن کا مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا ہمیں چند افراد، جن پر دہشت گردی کا الزام ہے، ان کی وجہ سے پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے اور ان کے حوالے سے جو کچھ بین الاقوامی برادری کہہ رہی ہے، اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔‘‘

فیصل بلوچ کی سوچ سے اتفاق کرتے ہوئے اکنامک افیئرز ڈویژن کے ایک افسر نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے لیے درآمدات کے حوالے سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں ہم نے ایک ہائی ٹیک آئٹم برطانیہ سے خریدنے کی کوشش کی اور تمام معاملات کے باوجود اس ڈیل کو منسوخ کر دیا گیا۔ اب اس فہرست کے بعد مالیاتی اور اقتصادی میدانوں میں ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔‘‘

اس موقف کے برعکس بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ پاکستان نے ابھی بھی سب کچھ نہیں کھویا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ درست ہے کہ امریکا کا عالمی مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے لیکن یورپی یونین کے ممالک کا بھی ان معاملات میں عمل دخل ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یورپی ممالک ہر معاملے میں امریکا کے ہمنوا بنیں۔ اس کی ایک بہترین مثال ایران کے ساتھ جوہری معاہد ہ ہے، جس میں یورپی ملکوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے ہمیں اپنے یورپی دوستوں کو اس حوالے سے قائل کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر روس اور چین کا بھی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں ان سے بھی رابطے کرنا چاہییں۔ یہ فہرست امریکا کی طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش ہے، جس سے نمٹا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم دانش مندانہ انداز میں اس مسئلے کو دیکھیں اور کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں۔‘‘

پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی اطلاع پر امریکی انعام

پاکستان: دہشت گردی میں مالی معاونت کے خلاف اقدامات کا وعدہ

پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس فہرست کے معاملے کو ہر سطح پر اٹھائے گی۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما راجہ ظفرالحق نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس میں پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ ہم ہر سطح پر اس مسئلے کو اٹھائیں گے اور اسے حل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ لیکن میں بین الاقوامی برادری سے یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ کیا انہیں کشمیر بھارتی مظالم نظر نہیں آتے۔ صرف ایک ہی ہفتے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، بیسیوں نابینا ہوگئے ہیں۔ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔ عالمی ادارے اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے؟‘‘

پاکستان کا نام فہرست میں شامل نہیں