روس جرمن مذاکرات : توانائی کا موضوع اہم
19 جولائی 2011گزشتہ شب ان کا آغاز جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور روسی صدر دیمتری میدویدیف کے ایک غیر رسمی عشائیے سے ہوا تھا۔ آج ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور جرمن مجلس عاملہ کی طرف سے لوتھار دے میزیئر نے روس اور جرمنی کے مابین اس مکالمت کے نہایت کھلے ماحول میں ہونے پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا۔
روسی جرمن مذاکرت میں متعدد ایسے موضوعات زیر بحث رہے جو نہ صرف دونوں ممالک کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ کسی حد تک طرفین کے مابین کشیدگی کا باعث بھی رہے ہیں۔ مثلاً روسی شہریوں کے لیے یورپی یونین کے ممالک کے سفر سے متعلق آزادی کا معاملہ۔ جرمن چانسلر نے اس امر کا اعتراف کیا کہ برلن کی طرف سے روس اور یورپی یونین کے مابین سفری آزادی اور ویزے کی فراہمی میں نرمی کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ تاہم اس بار دو طرفہ بات چیت میں اس موضوع کو مرکزی اہمیت حاصل رہی اور جرمن چانسلر کے بقول، ’روسی صدر کے ساتھ مذاکرات میں ہم نے قدم بہ قدم منصوبہ تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں طبی کارکنوں، طلبا اور سیاحوں کے لیے یورپی یونین کے ویزے میں بتدریج نرمی شامل ہوگی‘۔
میرکل کے بقول،’ایک بار کھل کر جھگڑ لینا، مسائل کو دباتے رہنے اور ان سے نظریں چرانے سے کہیں بہتر ہے۔ اس بار ہمارے مذاکرات نہایت کھل کر ہوئے اور میں ان سے خوش امید ہوں‘۔
جرمن چانسلر کی طرف سے مستقبل میں توانائی کے شعبے میں جرمنی کے روس پر انحصار کے موضوع کو بڑے ہلکے پھلکے انداز میں زیر بحث لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ روسی گیس کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک جرمنی کوئلے اور قابل تجدید توانائی کی مدد سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرے گا۔ 2020ء تک جرمنی اپنے جوہری ری ایکٹرز بند کر دے گا اور جرمنی کی توانائی کی ضرورت بہت مناسب سطح پر آ جائے گی۔
شمالی جرمنی کے شہر ہینوور میں دونوں ملکوں کے درمیان حکومتی سطح کی سالانہ مشاورت سے قبل میرکل نے روسی جرمن فورم کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’گیس کی درآمدات کے سلسلے میں یہ کہنا تو کسی حد تک مبالغہ آرائی ہو گی کہ ہماری انتہا آسمانوں کی بلندی ہے‘۔ نہ ہی ان کی تقریر اینٹی گیس پروم ہے، جو روس کی تیل کی سب سے بڑی سرکاری کمپنی ہے۔ تاہم جرمن چانسلر نے کہا کہ جرمنی کا یہ ہدف اس دنیا سے باہر کی بات نہیں ہے، یہ ایک مناسب رینج کے اندر کی بات ہے جو روسی کمپنی گیس پروم پورا کر سکتی ہے۔ میرکل کے ان بیانات کے رد عمل کے طور پر روس کے نائب وزیر اعظم وکٹر سُبکوف نے مسکراتے ہوئے کہا، ’اگر آئندہ سالوں میں جرمنی کے لیے روسی گیس برآمدات بڑھ کر 30 سے 35 فیصد تک پہنچ جائیں تو بُرا نہ ہو گا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک